ولقد………الصلحون (105)
زبور ایک الہامی کتاب تھی جو دائود (علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس سورة میں ذکر سے مراد تو رات ہوگی۔ جو زبور سے پہلے نازل ہوئی۔ یہ کتاب کی صفت ہے یعنی کتاب کا ایک ٹکڑا۔ اصل کتاب کا حصہ بمعنی لوح محفوظ ، جو ایک مکمل نظام ہے ، جو ایک مکمل مرجع ہے او اس کائنات کے ساتھ متعلق تمام قوانین اس کے اندر محفوظ ہیں۔ اس کا حصہ ہیں۔
بہرحال اصل زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے۔
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (21 : 105) ” اور زبور میں نصیحت کے بعد ہم نے لکھ دیا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “ وراثت کیا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمین کی وراثت اور اقتدار اعلیٰ کے بارے میں سنت الہیہ کیا ہے ؟ یہ کہ یہاں اقتدار میرے صالح بندوں کو ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ صالح بندے کون ہیں ؟
اللہ نے زمین پر آدم کو خلیفہ بنایا تاکہ وہ اس زمین کی تعمیر کرے او اس کی اصلاح کرے۔ اس کو ترقی دے اور اس سے تو جو خزانے ودیعت کئے ہوئے ہیں ، ان سے استفادہ کرے ، اس کے اندر جو طبیعی قوتیں ہیں ان کو کام میں لائے او اس ترقی کو اپنی انتہا تک پہنچائے جہاں تک اللہ چاہے۔
اس خلافت فی الارض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک منہاج بھی انسان کو دے دیا ، جس کے مطابق انسان نے زمین پر کام کرنا ہے۔ یہ منہاج نبی ﷺ نے اپنی آخری رسالت میں مکمل و مفصل کردیا ہے اور اس کے لئے قوانین اور ضوابط مقرر کردیئے ہیں۔ اس کے لئے ان قوانین میں مکمل ضمانت ہے۔
اس نظام کے مقاصد میں صرف یہ بات ہی شامل نہیں ہے کہ انسان زمین کے اندر موجود ذخائر کو کام میں لا کر مادی ترقی پر زور دیتا ہے بلکہ انسانی عقل اور انسانی ضمیر اور اس کی روح کو بھی ترقی دے۔ تاکہ اس دنیا میں انسان نے جس قدر مادی اور روحانی ترقی کرنی ہے وہ اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا میں مادی ترقی کرتے کرتے وہ خود محض حیوان بن کر تنزل کا شکار نہ ہوجائے۔ مادی ترقیات تو آسمانوں کو چھو رہی ہوں اور انسان کی انسانیت پستیوں کی آخری حدوں پر (……) میں ہو۔
جب انسان اسلامی نظام زندگی کے مطابق منصب خلافت کے فرائض ادا کرتے ہوئے راہ ترقی پر گامزن ہو ، تو اس راہ میں مادی ترقی اور روحانی ترقی کا توازن کبھی کبھی بگڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی ایک پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ اور توازن باقی نہیں رہتا۔ بعض اوقات اقتدار کے سرچشموں پر ڈکٹیٹر ، ظالم اور سرکش لوگ قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی ان مناصب پر سخت جاہل ، اجڈ اور مہم جو قابض ہوجاتے ہیں ، کبھی ان مناصب پر کفار اور فجار خالص ہوجاتے ہیں جو پوری دنیا کا مادی اور اخلاقی استحصال کرتے ہیں لیکن یہ صرف راستے کے تجربے ہوتے ہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ زمین کے مناصب کی وراثت اللہ کے صالح بندوں کے لئے ہے۔ جن کا ایمان بھی مکمل ہو اور عمل بھی درست ہو۔ ان کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے ہوں۔
امت میں جب بھی ایمان اور عمل اسلامی معیار کے مطابق جمع ہوئے ہیں ، تاریخ کے کسی بھی موڑ میں ، تو زمین صالح بندوں کی وراثت بنی ہے لیکن جب ایمان و عمل میں جدائی ہوئی ہے یعنی ایمان نہیں رہا یا عمل نہیں رہا ، تو یہ وراثت ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگوں کو غلبہ مل جاتا ہے جو محض مادی وسائل پر تکیہ کرتے ہیں۔ جو لوگ محض زبانی کلامی مومن ہوتے ہیں وہ پیچھے رہ جات یہیں۔ نیز بعض اوقات اہل ایمان کے اندر رسمی ایمان تو وہتا مگر وہ صحیح ایمان نہیں ہوتا جو انسان کو صحیح عمل پر آمادہ کرے اور دنیاوی ترقی کرے تو ایسی صورت میں بھی محض مادی ترقی کرنے والے لوگ زمین کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ اہل ایمان ، ایمان کے ان تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہوتے جو خلافت فی الارض کے اونچے مقام کے لئے اسلامی نظام کی شکل میں اللہ نے اہل ایمان کے لئے وضع کئے ہیں۔
تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اس وقت ایک ہی فرض ہے ، وہ یہ کہ وہ اپنے دلوں میں ایمان کا حقیقی مفہوم پیدا کریں۔ ایمان کا حقیقی مفہوم عمل صالح ہے۔ پھر خلافت فی الارض کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ کی سنت اپنے ظہور میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرتی۔
ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (21 : 105) ” زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ “ اب آخر میں عقل و خرد کی تاروں پر اسی مضراب کی ضربات لگتی ہیں جن کے نغمات سورة کے آغاز میں سنے گئے تھے۔
٠%