أنت تقرأ التفسير لمجموعة الآيات 20:11 إلى 20:12
فلما اتاها نودي يا موسى ١١ اني انا ربك فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طوى ١٢
فَلَمَّآ أَتَىٰهَا نُودِىَ يَـٰمُوسَىٰٓ ١١ إِنِّىٓ أَنَا۠ رَبُّكَ فَٱخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًۭى ١٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

فلمآ اتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (21 : 61) ’ اور میں نے تجھ و چن لیا ہے ‘ سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ‘ ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا “۔

انسان کا خون خشک ہوجاتا ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ محض اس منظر کے تصور سے ‘ ایک غیر آباد پہاڑی پر موسیٰ اکیلے کھڑے ہیں۔ تاریک اور سیاہ رات ہے۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ‘ عجیب اور خوفناک خاموشی ہے ‘ طور کے دامن سے انہوں نے آگ دیکھی تھی ‘ وہ اس کی تلاش میں نکلے تھے ‘ لیکن ان کو ہر طرف سے پوری کائنات کی طرف سے یہ ندا آرہی ہے :

انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لما یوحی (31) (02 : 21۔ 31) ” اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے ‘ تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے “۔

یہ چھوٹا سا ذرہ ناچیز ‘ یہ محدود بشر لامحدود رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہے ‘ جسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ عظمت و جلال جس کے مقابلے میں یہ نظر آنے والی کائنات زیمن و آسمان سب حقیر ہیں یہ ذرہ ضعیف ‘ انسانی قوائے مدر کہ کے ساتھ ‘ ایک لامحود ذلت کے ساتھ مربوط ہوگیا ‘ اس کی آواز سن رہا ہے ‘ کس طرح ؟ اللہ کی خاص رحمت ہے ‘ ورنہ کیسے ممکن ہے۔ محدود اور لامحدود کا اتصال ؟

پوری انسانیت اب موسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اٹھائی جارہی ہے ‘ سربلند کی جارہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے وہ بشری شخصیت کو لئے ہوئے ہی لامحدود فیض و صول کررہی ہے۔ اس انسانیت کے لئے کیا یہ کوئی کم شرف ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کا اتصال اور رابطہ ‘ اس انداز میں ‘ رب ذوالجلال کے ساتھ ہوگیا ‘ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیونکر وہ گیا یہ ؟ کیونکہ انسانی قوائے مدر کہ اس حقیقت کا نہ ادراک کرسکتی ہیں اور نہ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ انسان کی قوائے مدرکہ کا بس یہ کام ہے کہ وہ حیران رہ کر اپنے قصور کا اعتراف کریں ‘ ایمان لائیں اور شہادت دیں کہ یہ حق ہے۔

فلما۔۔۔۔۔۔۔ یموسی (11) انی اناربک (21) (12 : 11۔ 21) ” جب وہاں پہنچا تو پکارا گیا اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں “۔ پکارا گیا ‘ ماضی مجہول کا صیغہ استعمال ہوا۔ کیونکہ آواز کے مصدر اور جہت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ نہ آواز کی صورت اور کیفیت کا تعین ممکن ہے۔ نہ اس بات کا تعین ممکن ہے کہ کس طرح سنا اور کس طرح سمجھے۔ پکارا گیا جس طرح پکارا گیا اور انہوں نے سمجھا جس طرح سمجھا۔ کیونکہ یہ اتصال ان امور میں سے ہے جن پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ ایسا ہوا مگر اس کی کیفیت کے بارے میں نہیں پوچھتے کیونکہ یہ کیفیت انسانی قوت مدر کہ اور انسانی دائرہ تصور سے وراء ہے۔

انی انا۔۔۔۔۔۔۔ طوی (02 : 21) ” اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے تو وادی مقدس طوی میں ہے “۔ تم بار گاہ رب العزت میں ہو ‘ اس لیے پائوں سے جوتے اتار دو تاکہ تم ننگے پائوں آئو ‘ ایک ایسی وادی میں جس پر پاکیزہ انوار کا نزول ہورہا ہے۔ اس لیے اس وادی کو اپنے جوتوں سے نہ روندو۔