undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد یہ ہے اس نظریہ کے مطابق ایک امت کو میدان میں لایا جائے ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دی جائے جو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ ایک نیا جہاں پیدا کیا جائے اور ایک نیا نظام تشکیل دیا جائے۔ ایک ایسی عالمی دعوت اور تحریک برپا کی جائے جو کسی گروہ ، قبیلے اور کسی نسل کی طرفدار نہ ہو۔ اس دعوت میں اجتماعی رابطے اور تعلق کی بنیاد کسی عصبیت اور قومیت پر نہ ہو۔

چناچہ اس کتاب کی تعلیمات ان اصولوں پر مبنی ہیں جن کے اوپر سوسائٹی اور امت کی تشکیل ممکن ہے۔ ان تعلیمات اور اصولوں پر افراد اقوام اور امم کو پورا اطمینان حاصل ہو ، اور باہم معاملات و تعلقات ، وعدوں اور معاہدوں پر پورا بھروسہ ہو۔

اس کتاب کی تعلیمات میں سے پہلی تعلیم عدل سے متعلق ہے۔ ایسا عادالانہ نظام جس میں ایک فرد ، ایک جماعت ، ایک قوم اور اقوام سب کے حقوق محفوظ ہوں۔ یہ عدل کسی کی خواہش سے متاثر نہ ہو۔ محبت اور بغض سے متاثر نہ ہو۔ رشتہ داری اور اقربا پروری کا اس میں نام و نشان نہ ہو۔ امیر و غریب کے لئے یکساں ہو ، قوی اور ضعیب کے حقوق اس میں برابر ہوں۔ یہ عدل اپنی راہ میں سیدھا چلے اور اس میں سب کے لئے ایک ہی معیار اور ایک ہی پیمانہ ہو۔

اس عدل کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی تعلیمات ایک دوسرے اہم اصول ، احسان پر مبنی ہیں۔ جہاں تک عدل کا تعلق ہے ، اس کی تلوار نہایت ہی تیز ، مضبوط اور بےلچک ہوتی ہے اور سیدھا کاٹتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات نے عدل کے ساتھ ساتھ دلوں کو جیتنے کے لئے احسان کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ یہ لازم نہیں کیا کہ بےلچک عدل کے مطابق اپنے حقوق بہرحال لئے جائیں ، اگر کوئی اپنے حقوق سے دست کش ہونا چاہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ اس سے دلوں کی دشمنی دور ہوجاتی ہے اس سے زخم مند مل ہوجاتے ہیں۔ نیز فضائل اخلاق اور کریمانہ طرز عمل کا اظہار ہوتا ہے۔

احسان کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ ہر چھا کام احسان ہے۔ احسان کے حکم میں ہر عمل اور ہر معاملہ آتا ہے۔ انسان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ، انسان کا اپنے خاندان کے ساتھ تعلق ، انسان کا جماعت کے ساتھ تعلق اور انسان کا پوری انسانیت کے ساتھ تعلق۔

بعض مفسرین نے محض اس لئے کہ یہ آیت مکی ہے ، عدل کو عبادات واجبیہ اور احسان کو عبادات نفلی پر محمول کیا ہے کیونکہ مکہ میں اسلامی قوانین نازل نہ ہوئے تھے۔ لیکن عدل و احسان میں قانون کے علاوہ اخلاقی معاملات اور انفرادی طرز عمل بھی آتے ہیں اس لئے ان کو عبادات کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے۔

احسان کی ایک قسم رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور ان پر خرچ ہے اور اس کا خصوصی حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اسلام میں اس کی بہت بڑی اہمیت اور عظمت ہے اور اس کی بہت بڑی تاکید ہے۔ اس میں پائے جانے والی بنیادی سوچ خاندان کی عصبیت نہیں ہے بلکہ اس سے غرض وغایت خاندانی نظام اور خاندانی نظام کے اوپر تعمیر کردہ اسلامی نظام تکافل اجتماعی ہے۔ اسلام نے اپنے اجتماعی نظام کا پہلا یونٹ خاندان کو قرار دیا ہے اور اس کے بعد وہ اسے بتدریج سوسائٹی تک عام کرتا ہے کیونکہ اجتماعی تکافل (Security) کے بارے میں اسلام کی اپنی سوچ ہے۔

وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی (61 : 09) ” اور بدی اور بےحیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے “۔ فحشاء ہر اس بات کو کہتے ہیں جو حد سے تجاوز کرے۔ یہ زیادہ تر اس تجاوز کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی ذاتی عزت کے خلاف ہو کیونکہ جنسی بےراہ روی بھی ایک ایسا فعل ہے جو اپنی حدود سے آگے بڑھ کر کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی زیادتی اور حدود سے تجاوز پایا جاتا ہے۔ بالعموم یہ لفظ جنسی بےراہ روی کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے۔ المنکر وہ فعل ہے جس کا فطرت سلیمہ انکار کرے اور شریعت بھی اسے اسی وجہ سے منکر سمجھتی ہے کیونکہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام ایک فطری نظام ہے۔ شرعیت اور قانون تو اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ اور فطرت انسانی بسا اوقات بگڑ جاتی ہے۔ فطرت کے بگاڑ کے وقت پھر شریعت معیار بن جاتی ہے۔ البغی سے مراد ظلم اور لوگوں کے حقوق پر دست درازی ہے۔

دنیا میں کوئی معاشرہ بھی فحاشی ، منکرات اور ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ایسا معاشرہ کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا جس میں فحاشی وسیع پیمانے پر رائج ہو ، نیز ایسی سوسائٹی بھی کبھی پنپ نہیں سکتی ، جس میں منکرات نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہو۔ ایسا کوئی ملکی نظام قائم نہیں رہ سکتا جس کی اساس ظلم پر ہو۔

کوئی بھی معاشرہ ایسے اجتماعی نظام کو بہت ہی کم عرصہ تک برداشت کرتا ہے ، جلد ہی اس نظام کے خلاف لوگ احتجاج شروع کردیتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کوئی ظالمانہ اور جابرانہ معاشرہ پر قوت اور پر شوکت ہو۔ اگرچہ ایسے اجتماعی نظام کے بااختیار لوگ ایسے نظام کی حمایت اور بچائو کے لئے لا انتہاء وسائل استعمال کریں۔ انسانی تاریخ کا اگر تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو یہ تاریخ در حقیقت فحاشی ، منکرات اور ظلم کے خلاف مسلسل احتجاج سے عبارت ہے لہٰذا اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ تاریخ میں کچھ عرصے تک کوئی اجتماعی نظام فحاشی ، منکرات اور ظلم پر قائم رہا ہے۔ ایسے نظاموں کے خلاف چونکہ ہمیشہ احتجاج اور رد عمل ہوتا رہا ہے اس لئے تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے۔ ایسے نظام میں اسلامی سوسائٹی کے جسم کے لئے فارن باڈی رہے ہیں اور انسانی سوسائٹی نے ہمیشہ ایسے نظاموں کو جھاڑ کر پھینک دیا ہے جس طرح ہر جسم اپنے اندر فارن باڈی کے آنے کے خلاف رد عمل کرتا ہے۔ چناچہ اللہ کی طرف سے عدل و احسان کا حکم دینا اور فحاشی ، منکرات اور ظلم سے منع کرنا فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہے۔ اسلام اس فطری رد عمل کو اسلامی جدوجہد قرار دے کر اسے قوت عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکم پر سبق آموز تبصرہ یوں آتا ہے۔

یعظکم لعلکم تذکرن (61 : 09) ” وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو “۔ یہ نصیحت اس لئے ہے کہ تم اپنی اصل فطرت کی طرف رجوع کرو اور اسے یاد کرو “۔