أنت تقرأ التفسير لمجموعة الآيات 12:54 إلى 12:55
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم (12 : 55) یوسف (علیہ السلام) نے کہا “ ملک کے خزانے میرے پیرو کیجئے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ”۔

آئندہ کی مہم کا خلاصہ یہ ہے کہ سات سال سرسبزی کے ہیں اور ان میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پیداوار کے ایک ۔۔۔۔۔ بچایا جائے ، امور مملکت کو اچھے طریقے سے چلایا جائے ، مملکت کے تمام شعبوں کو درست کیا جائے اور خوشحالی کے دور میں ایسی پلاننگ کی جائے کہ بدحالی اور خشک سالی میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایسی ہی صلاحیتوں کا ذکر کیا اور جو ایسے حالات کے لئے ضروری تھیں یعنی حفیظ وعلیم۔ اور مصر اور تمام علاقائی ، ممالک کے لئے یہ انتظام مفید تھا۔ اس لئے کہا انی حفیظ علیم (12 : 55) حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ مطالبہ اس لئے نہ تھا کہ وہ وزارت خزانہ لے کر اپنے لئے کچھ مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ایک صاحب رائے دانشور تھے اور انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس ڈیوٹی کے لئے ان سے زیادہ اور کوئی موزوں شخص نہیں ہے۔ آنے والا دور ایک عبرانی دور ہوگا کیونکہ پوری مصری قوم اور پڑوسی اقوام کے لئے غلے اور دوسری رصد کے انتظام کا عظیم مسئلہ در پیش ہوگا۔ سات اچھے سالوں میں کفایت شعاری اور سات مشکل سالوں میں سپلائی کو بحال رکھنے کا عظیم انتظام درپیش تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی ذات کے لئے کچھ طلب نہ فرماتے تھے بلکہ یہ تو وہ عظیم ذمہ داری تھی جس سے ہر ایک بھاگ رہا تھا ، کوئی شخص بھی خوشی سے غنیمت سمجھ کر اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ ایک تو یہ کہ شاہی نظام میں گردن زدنی کا بھی خطرہ تھا ، دوسرے یہ کہ عوام الناس کو بھوک اور افلاس کی حالت میں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب عوام بھوکے ہوں تو وہ مجنون کی طرح اہلکاروں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ یہ تمام امکانات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پیش نظر تھے۔

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا اور مطالبہ کیا کہ “ مجھے زمین کے خزانوں پر نگراں کر دیجئے ، میں حفیظ وعلیم ہوں ”۔ کیا ان کی طرف سے یہ منصب کا مطالبہ نہیں ہے جو اسلامی نظام میں سخت معیوب ہوتا ہے ۔ جبکہ یہ تو کسی منصب پر مقرر کرنے کا صریح مطالبہ ہے ، اور حدیث میں آتا ہے (خدا کی قسم ہم اس معاملے کو اس شخص کے حوالے نہیں کرتے جو اس کا مطالبہ کرے ) (متفق علیہ ) ۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہاں خود بتایا ہے کہ وہ حفیظ اور علیم ہیں۔ یہ ایک گونہ اعلان تزکیہ نفس ہے اور خود قرآن میں آتا ہے۔ فلا تزکوا انفسکم “ اپنی پاکی داماں کی حمایت مت کرو ”۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ انتظامی اصول حضور اکرم ﷺ کے دور میں تو نافذ ہوئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں بھی یہ ممنوع ہوں۔ کیونکہ تمام پیغمبروں کا اصول دین پر تو اتفاق رہا ہے لیکن انتظامی امور اور شرعی قوانین ہر ایک کے ہاں جدا تھے۔

لیکن ہم یہ سر سری جواب نہیں دیتے کیونکہ اس مسئلے کو ذرا گہرائی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے نتائج نہایت گہرے اور دور رس ہیں۔ اس کے کچھ اور پہلو اور اعتبارات ہیں ، اسے ان پہلوؤں سے وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تا کہ ہم احکام فقیہہ کے استنباط میں اس وسیع نقطہ نظر سے مسائل کا استنباط کرسکیں اور فقہی احکام کو بھی تحریکی اندازدے سکیں۔ کیونکہ فقہی احکام ، ان کے استنباط کا طریق کار اور اصول فقہ بھی مسلمانوں کے دور جمود اور زوال میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کو بھی تحریکی Daynamic انداز دینا ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فقہ محض خلاء میں وجود میں نہیں آئی نہ اسے محض خلاء میں سمجھا یا نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ فقہ اسلامی کا ارتقاء ایک ارتقاء پذیر اسلامی معاشرے کے اندر ہوا ہے۔ اس معاشرے کو اپنے ارتقائی دور میں اسلامی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ یہ فقہ اسلامی نہ تھی جس نے کسی اسلامی معاشرے کو جنم دیا ہو ، بلکہ ایک اسلامی معاشرہ کے اندر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اسلامی فقہ ارتقاء پذیر ہوئی۔ یہ دو عظیم حقائق ہیں اور اسلامی تاریخ ان پر گواہ ہے۔ اسلامی معاشرے اور تخلیق فقہ کے باہم تعلق کو جب تک نہ سمجھیں گے اس وقت تک ہم اسلامی فقہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور نہ اسلامی فقہ کی تحریکی اور ارتقائی حیثیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو آج ان نصوص کو پڑھتے اور فقہ کے مدون احکام کو لیتے ہیں اور ان کے پیش نظریہ حقیقت نہیں ہوتی کہ پہلی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تھا اور پھر فقہ وجود میں آئی اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نصوص کن حالات میں نازل ہوئیں اور اسلامی فقہی مسائل کس طرح مرتب ہوئے ، خصوصاً وہ ماحول ، وہ معاشرہ اور وہ مزاج جن میں یہ نصوص نازل ہوئیں ان کو بھی پیش نظر نہیں رکھتے تو اس قسم کے لوگ اس قانون کو محض خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ کوئی قانونی نظام کسی خلاء میں نافذ نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ معاشرے میں نافذ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل فقہاء نہیں ہیں نہ یہ لوگ ماہرین قانون اسلامی ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت اسلامی نظام کے مزاج ہی کو نہیں سمجھے نہ اس دین کی حقیقت کو سمجھے ہیں۔

تحریکی فقہ دراصل اس فقہ سے مختلف ہے جو کتابوں کے اوراق میں ہے ، اگرچہ فقہ تحریکی بھی ان اصول اور نصوص پر مبنی ہوتا ہے جن پر فقہ اوراق مبنی ہے۔ تحریکی فقہ ان حالات پر بھی نظر رکھتی ہے جن میں نصوص قرآن و سنت کا نزول ہوا۔ ایک عملی فقیہ کو نظر آتا ہے کہ شان نزول اور حالات نزول دونوں کو اصل نصوص سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کسی نص کو ہم ان حالات سے علیحدہ کر کے اس پر غور کریں گے جن میں وہ نازل ہوئی تھی تو ہمارا استنباط اور اجتہاد غلط ہوجائے گا۔ اور اس طرح جو فقہ مرتب ہوگی وہ درست نہ ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی فقہی حکم خداوندی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی جگہ مستقلاً خلاء میں آیا ہو اور جس میں اس وقت کے ماحول اور معاشرے کے اثرات نہ ہوں جن میں وہ پہلی مرتبہ وارد ہوا۔ کوئی فقہی حکم اور اجتہاد چونکہ خلاء میں نہیں ہوا اس لئے وہ خلاء میں نہیں رہ سکتا۔

یہ اصول جو اوپر ہم نے بیان کیا اس کی مثال وہ احکام ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو اپنی پاکی داماں کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے یا کسی شخص کو اپنے آپ کو کسی منصب کے لئے پیش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ احکام اس آیت فلا تزکوا انفسکم “ اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ نہ کرو ” اور حضور ﷺ کی حدیث سے ماخوذ ہیں۔ انا واللہ لا تولی ھذا العمل حدا اسالہ “ ہم خدا کی قسم یہ منصب اس شخص کو نہیں دیتے جو اسے مانگتا ہے ”۔

یہ احکام اس معاشرے میں آئے تھے جو ایک اسلامی معاشرہ تھا اور اس اسلامی معاشرے میں ان احکام کو عملاً نافذ بھی کردیا گیا تھا ۔ یہ احکام تھے ہی ایسے معاشرے کے لئے ، تا کہ قائم اسلامی معاشرے کی ضرورت کو پورا کریں ، اس وقت کا قائم اسلامی معاشرہ اپنا ایک تاریخی پس منظر اور اپنا ایک مخصوص عضویاتی ترکیب کا حامل تھا ، اس معاشرے کی اپنی مخصوص اور ذاتی صورت حال تھی۔ یہ دونوں احکام ایسے احکام تھے جنہوں نے ایک مکمل قائم شدہ اسلامی معاشرے کے اندر نافذ ہونا تھا ، انہیں حالات میں وہ نازل ہوئے ۔ یہ خلاء میں نازل نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا ان دونوں احکام کو ہم ایک قائم شدہ اسلامی معاشرے میں نافذ کرسکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس کی ترکیب ، جس کی اٹھان اور جس کی عضویاتی تحریک اسلامی ہو۔ جب بھی ایسا معاشرہ قائم ہوگا اس میں ایسے احکام اور ان کے مطابق نظام قائم ہوجائے گا۔ اگر کہیں اسلامی معاشرے کا نام و نشان ہی نہ ہو تو ان میں یہ احکام نافذ نہیں ہو سکتے ، محض خلاء میں۔

یہی معاملہ تمام اسلامی احکام کا ہے لیکن ہم اسلام کے دوسرے احکام کے بارے میں یہاں تفصیلات دینا مناسب نہیں سمجھتے۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں لوگ خود اپنے منہ میاں مٹھو کیوں نہیں بنیں گے اور خود اپنے آپ کو امیدوار کیوں نہ بنائیں گے اور وہ اپنے پسندیدہ افراد کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیوں نہ کرسکیں گے کہ ان کو مجلس شوریٰ گورنر یا کسی اور منصب کے لئے منتخب کیا جائے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جب اسلامی معاشرہ قائم ہوگا تو لوگوں کو اپنی صلاحیت اور افضلیت کے اظہار کے لئے کسی پروپیگنڈے کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ نیز اسلامی معاشرے میں منصب ایک قسم کی ذمہ داری ہے اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو خواہ مخواہ کوئی ذمہ داری اپنے سر لینے کے لئے جدو جہد کرے گا الا یہ کہ اللہ کی رضا مندی کے حصول ، خدمت خلق کے ذریعہ حصول ثواب یا معاشرے کے اندر فرائض کی ادائیگی کے لئے اس منصب کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی اس طرح کہ کوئی یہ منصب اور ذمہ داری کسی پر ڈال دے۔ جو لوگ خود مطالبہ کرتے ہیں اور مناصب کے پیچھے دوڑتے ہیں یہ ہلکے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر ان مناصب سے کچھ اور اغراض حاصل کرنی ہوتی ہیں لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ مناصب ہرگز پیش نہ کئے جائیں۔

لیکن یہ حقیقت صرف اس وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب اسلامی معاشرے کے قیام اور اس کے مزاج کو سمجھا جائے اور اس کی تشکیل کی نوعیت ذہن میں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حرکت اور تحریک کسی بھی اسلامی معاشرے کی جان ہے۔ اسلامی معاشرہ دراصل تحریک اسلامی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ، کس طرح ؟

(1) ۔ مثلاً اللہ کی جانب سے ایک پیغام اور عقیدہ نازل ہوتا ہے ۔ ایک رسول اس کی تبلیغ کرتا ہے۔ زمانہ نبوت میں تو رسول بذات خود تبلیغ کرتا تھا ، جبکہ زمانہ نبوت کے بعد اب رسول کی جگہ کوئی داعی اسی عقیدے کی طرف سے دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کو کچھ لوگ قبول کرتے ہیں جبکہ دعوت کے ابتدائی ایام میں نظام حکومت جاہلی ہوتا ہے اور یہ جاہلی نظام حکومت اور یہ جاہلی معاشرہ اس تحریک پر ظلم کرتا ہے اور تشدد اور فتنے اور آزمائش کے دور میں کچھ لوگ تحریک کا ساتھ چھوڑ کر مرتد ہوجاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مقابلہ کر کے شہید ہوجاتے ہیں اور بعض انتظار کرتے ہیں اور کام جاری رکھتے ہیں۔

جو لوگ مشکلات برداشت کر کے کام جاری رکھتے ہیں ، اللہ ان کو فتح نصیب کرتا ہے ، یہ لوگ پھر دست قدرت کا آلہ ہوتے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ تمکن فی الارض اور غلبہ اور اقتدار عطا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کا مستقل وعدہ ہے ۔ اس طرح یہ لوگ زمین پر حکومت الہیہ قائم کرتے ہیں اور اس میں اللہ کے احکام نافذ کرتے ہیں ۔ یہ اقتدار اور تمکن فی الارج ان لوگوں کی ذات کے لئے نہیں ہوتا بلکہ یہ نصرت اور غلبہ اللہ کے دین کے لئے ہوتا ہے اور زمین پر اللہ کا نظام ربوبیت قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

دین کا یہ ہر اول دستہ دین کو لے کر پھر کسی ارضی حدود پر ٹھہرتا نہیں ، نہ کسی قوم اور نسل کی حدود کے اندر اپنے آپ کو محدود کرتا ہے۔ نہ کسی رنگ اور نسل تک محدود ہوتا ہے نہ کسی زبان اور شکل تک محدود ہوتا ہے ، یہ تو بہت ہی کچے اور ناپائیدار عناصر اور محدود دائرے ہیں ، بلکہ یہ ہر اول دستہ اس پیغام کو لے کر اطراف عالم میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پورے کرۂ ارض سے تمام انسانوں کو انسانی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ تمام طاغوتی قوتوں سے ٹکراتا ہے اور پورے کرۂ ارض پر اللہ کی بندگی کا نظام قائم کرتا ہے۔

اس تحریکی عمل کے دوران اس دین کو لے کر تحریک برپا کرنے والے کسی ایک علاقے میں حکومت برپا کر کے رک نہیں جاتے۔ نہ کسی جغرافیائی یا نسلی یا قومی حدود پر وہ رکتے ہیں۔ یہ تحریک لوگوں کی قدریں بدل دیتی ہے۔ معاشرے کے اندر لوگوں کے مرتبہ و مقام کا از سر نو تعین ہوتا ہے۔ تمام اقدار ایمانی پیمانے کے اوپر استوار ہوتی ہے۔ لوگوں کا معاشرے میں تعارف ان جدید اقدار پر ہوتا ہے اور ہر فرد کی قیمت از سر نو متعین ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں افراد کی قدرو قیمت اس پر ہوتی ہے کہ انہوں نے اقامت دین کے لئے کس قدر جدو جہد کی ، کس قدر آزمائشیں ان پر آئیں ، تقویٰ ، خدا خوفی ، اخلاق اور صلاحیت کے اعتبار سے وہ کیسے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہوتی ہیں جو واقعات کی صورت میں متعین ہوتی ہیں اور اسلامی تحریک ان کا اظہار کرتی ہے اور تمام اسلامی معاشرہ اور اسلامی تحریک ایسے افراد سے واقف ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد کو اس بات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تعریف خود کریں یا کسی منصب اور ذمہ داری کا مطالبہ کریں ، ایک تو ان کو اس بات کی ضرورت ہی پیش نہیں ا آتی۔ دوسرے یہ کہ ان کا تزکیہ اور تربیت اس قدر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ ایسے نہیں کرتے۔

بعض اوقات ، بعض لوگ اس طرح سوچتے ہیں کہ یہ پہلے اسلامی معاشرے کی خصوصیت تھی کیونکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرن اول کے ان لوگوں کی بہترین انداز میں تربیت فرمالی گئی تھی لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ کوئی ایسا معاشرہ بھی اس وقت وجود میں نہیں آسکتا جب تک اس کے لے اس قسم کی تحریک برپا نہ کی جائے اور صحابہ کرام کی طرح ان کی تربیت کر کے اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے جدو جہد نہ کی جائے۔ جب بھی ہم کوئی ایسا معاشرہ قائم کریں گے ہمیں ایسی ہی راہوں سے گزرنا ہوگا ۔ ایک تحریک برپا ہوگی ، وہ لوگوں کو از سر نو دین اسلام کے اپنانے کی دعوت دے گی اور اس طرح لوگوں کو جاہلیت سے نکالنے کی سعی کی جائے گی۔ پھر اہل جاہلیت اسی طرح ان کارکنوں پر تشدد کریں گے۔ کچھ لوگ تحریک سے بھاگ نکلیں گے اور ارتداد کی راہ اختیار کریں گے لیکن بعض لوگ اپنی راہ پر جم جائیں گے۔ ان کے لئے دعوت اور تحریک کو چھوڑنا ایسا ہی ہوگا جس طرح کسی کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ پھر اس کشمکش کا فیصلہ ہوگا ، اللہ تحریک کو فتح دے گا اور کسی ایک جگہ اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اس مرکز سے اسلامی انقلاب کا پھیلاؤ شروع ہوگا۔ اس وقت مجاہدین اور متحرکین بالکل سامنے آچکے ہوں گے۔ اس وقت ایمانی اقدار اور اوصاف واضح ہوچکے ہوں گے اور کسی کو ضرورت نہ ہوگی کہ وہ کوئی درخواست کسی منصب کے لئے پیش کرے کیونکہ ایسے لوگ تو معاشرے کے خدوخال ہوں گے اور وہ خود ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کو کوئی ذمہ داری سپرد کرے گا۔

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے کے بعد پھر ایسا ہوگا لیکن جب اسلامی معاشرہ مستقلا قائم ہوگیا تو پھر کیا صورت ہوگی۔ یہ سوال وہی لوگ کرتے ہیں جو اس دین کی حقیقت کو نہیں جانتے ۔ یہ دین ہمیشہ ایک تحریک کی شکل میں رہتا ہے۔ یہ کسی وقت بھی ٹھہرتا نہیں۔ اس کی تحریک اس مقصد کے لئے ہوتی ہے کہ تمام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے رہا کر کے اللہ کی بندگی اور غلامی میں داخل کیا جائے۔ یہ آزادی اور قربت تمام کرۂ ارض کے مکینوں کو حاصل ہو اور لوگ طاغوت کی بندگی کے بجائے اللہ کی بندگی کریں اور تحریک مسلسل جاری رہے۔ رنگ ، نسل اور جغرافیہ کی حدود و قبول کے بغیر۔

جب یہ تحریک مسلسل جاری رہے گی تو اس میں ثابت قد ، مخلص ، قربانی دینے والے لوگ ممتاز ہو کر خود بخود اوپر آتے جائیں گے۔ چونکہ یہ تحریک جاری رہے گی اس لئے یہ معاشرہ کبھی بھی رک کر منجمد اور بدمزہ نہ ہوگا الا یہ کہ یہ معاشرہ اسلامی راہ سے منحرف ہوجائے ۔ غرض اپنی صفات کے بارے میں خاموش رہنے اور تزکیہ نفس اور عدم امیدواری کا حکم اپنی جگہ قائم رہے گا جس طرح کہ آغاز میں ایک دائرے میں یہ حکم آیا۔ ایسے ہی دائرے میں ہی اپنی جگہ قائم رہے گا اور کام کرتا رہے گا۔

یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب سوسائٹی میں وسعت ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور شخصیتوں سے متعارف ہی نہیں ہوتے تو پھر با صلاحیت لوگوں کو مجبوراً اپنی صلاحیت کے بارے میں اشتہار دینا پڑے گا اور یہ بتانا پڑے گا کہ ان کا یہ اخلاق وکردار ہے اور وہ اس طرح کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

یہ سوال بھی ایک وہم پر مبنی ہے اور یہ موجودہ جاہلیتوں کی عملی صورت حالات پر مبنی ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کی یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ اسلامی معاشرہ میں اہل محلہ ایک دوسرے سے متعارف اور باہم متغافل ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تربیت ، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کے رخ اور اس کے التزامات کا لازمی تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کے لوگ ایک دوسرے سے بہت ہی اچھی طرح متعارف ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی ان صلاحیتوں کی جان پہچان ایمانی اقدار میں کرتے ہیں اس لئے یہ بات کوئی مشکل بات نہ ہوگی کہ اسلامی معاشرہ میں اچھے لوگوں کو مجلس شوریٰ یا انفرادی اور اجتماعی سروسز کے لئے منتخب نہ کرسکے۔ رہے بڑے عہدے مثلاً گورنر اور حاکم تو امام خود ان کے لئے آدمی تلاش کرسکتا ہے۔ جو اہل حل و عقد میں سے ہوتے ہیں۔ امام کے اہل شوریٰ بھی اس میں امداد کرسکتے ہیں اور اچھے افراد کو تلاش کرنے میں امیر اور امام کی مدد کرسکتے ہیں۔ پھر جس طرح ہم نے کہا اسلام تو ایک تحریک ہے اور جہاد تو یوم القیامت تک جاری رہے گا۔ لہٰذا تحریک اور جہاد کے ہوتے ہوئے کوئی صاحب صلاحیت کس طرح پوشیدہ رہ سکتا ہے ؟

جو لوگ آج اسلامی نظام حیات اور اس کی مفصل تنظیم کے بارے میں سوچتے ہیں یا اس موضوع پر لکھتے ہیں وہ ایک حماقت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی نظام حیات کے مدون فقہی اصولوں کو ایک خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، پھر وہ اس جاہلی معاشرے میں ان احکام کا نفاذ چاہتے ہیں جو عملاً قائم اور غالب ہے ۔ اس جاہلی معاشرے کی اپنی ایک مخصوص عضویاتی ترکیب ہے اور یہ عملاً قائم جاہلی معاشرہ اسلامی نقطہ نظر سے اور اسلام کے فقہی احکام کے نقطہ نظر سے ایک خلاء ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس کے اندر اسلامی شریعت نافذ ہو کیونکہ موجودہ جاہلی معاشرے کی عضویاتی ترکیب سو فیصد اسلامی معاشرے کی عضویاتی ترکیب کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ان شخصیات ، ان گروہوں اور ان لوگوں سے ہوتی ہے جنہوں نے اسلامی نظام کے لئے تحریک چلائی ، جاہلیت کے خلاف جدو جہد کی اور عالم اسلام کو عملی صورت میں نافذ کیا اور انہوں نے جاہلیت کے خلاف عملی جدو جہد کی تا کہ لوگوں کو جاہلیت سے نکال کر اسلام میں داخل کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جاہلیت کے تمام دباؤ برداشت کئے ، جاہلیت کی جانب سے ہر قسم کے تشدد اور ایذا رسانی کو انگیز کیا اور تحریک اسلامی کے ساتھ جاہلیت کی ہمہ گیر جنگ میں وہ اسلام کے ثابت قدم سپاہی رہے اور آغاز سے انتہاء تک وہ اس جدو جہد میں شریک رہے۔ رہا موجودہ جاہلی معاشرہ ، تو وہ ایک ٹھہرا ہوا معاشرہ ہے اور ایسی اقدار پر قائم ہے جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ اس معاشرے کا ایمانی اصولوں کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے اسلامی شریعت کے زاویہ سے یہ معاشرہ اسلام کے لئے ایک خلاء ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس خلاء میں اسلامی نظام جڑ نہیں پکڑ سکتا۔

اس قسم کے محقق اور لکھنے والے جب اسلامی احکامات کو عملی شکل دینے لگتے ہیں تو وہ قدم قدم پر پریشانی اور حیرانی سے دو چار ہوتے ہیں ۔ ان کو پہلی پریشانی یہ لاحق ہوجاتی ہے کہ اہل حل وعقد یا مجلس شوریٰ کو کس طرح چنا جائے۔ یعنی ایسا طریقہ کس طرح وضع کیا جائے کہ لوگ خود اپنے آپ کو امیدوار بھی نہ بنائیں اور خود اپنے منہ میاں مٹھو بھی نہ بنیں اور اچھے لوگ اوپر بھی آجائیں۔ ایسے لوگوں کو اس معاملے میں مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ موجودہ معاشرے جن میں ہم زندہ رہتے ہیں ، لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہی نہیں ہیں۔ نیز موجودہ دور میں ایسے لوگ بھی ناپید ہیں جو صلاحیت ، پاکدامنی اور امانت و دیانت کے ۔۔۔۔ پر پورے اترتے ہوں۔ اسی طرح امام اور خلیفہ کے انتخاب کے طریقے میں بھی یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ آیا خلیفہ کا انتخاب عوام الناس کریں گے یا اہل حل و عقد کریں گے۔ اگر اہل حل و عقد خود امیدوار نہ ہوں گے اور نہ اپنا تزکیہ کریں گے اور ان کا انتخاب امام کرے گا تو پھر وہ کس طرح امام کا انتخاب کریں گے۔ کیا اس کا اہل حل و عقد پر اثر نہ پڑے گا۔ پھر اگر یہ لوگ امام کو نامزد کریں گے تو کیا یہ لوگ امام کے مقابلے میں برتر نہ ہوں گے ، حالانکہ امام برتر امام ہوتا ہے اور امام اگر اہل حل و عقد کو منتخب کرتا ہے یا نامزد کرتا ہے تو یہ لوگ اس کے پسندیدہ نہ ہوں گے اور ان کے انتخاب میں یہ بات سر فہرست نہ ہوگی کہ وہ اس کے وفادار ہوں۔۔۔۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے اور ان محققین کی سطحی سوچ کی وجہ سے وہ اس کا کوئی جواب نہیں پا رہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسے محققین اسی نکتے سے غلط راہ میں پڑگئے ہیں۔ ان لوگوں کی غلط روی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے اصول و فروع موجودہ جاہلی معاشروں پر نافذ ہوں گے۔ موجودہ معاشروں اور سو سائٹیوں کی عضویاتی تشکیل اور ان کی اخلاقی اقدار کے ہوتے ہوئے ان میں اسلام نافذ ہوجائے گا۔ ایں خیال است ومحال است و جنوں۔

ان لوگوں کی حماقت اور پریشانی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ موجود جاہلی معاشرے کو بھی ایک اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اسلامی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی حالت جوں کی توں رہے گی۔

ان لوگوں کی حیرانی و پریشانی کا یہ نقطہ آغاز ہے اور جب یہ لوگ سوچ اور تحقیق شروع کرتے ہیں تو ہم خلاء میں ہوتے ہیں اور اس خلاء میں یہ لوگ اس قدر دور چلے جاتے ہیں اور ان کا مدار اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ پھر ان سے اپنی راہ ہی گم ہوجاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ جاہلی معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ، کوئی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ شریعت نافذ ہو سکتی ہے اور نہ اس میں فقہی دستور نافذ ہو سکتا ہے اور یہ اسی وجہ سے نافذ نہیں ہو سکتے کہ اسلامی شریعت اور اسلامی دستور کبھی بھی خلا میں نافذ نہیں ہوتے کیونکہ اسلامی نظام ایک عملی نظام ہے اور یہ کسی اسلامی معاشرے ہی میں نافذ ہو سکتا ہے ، خلا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔

اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ہی دراصل موجودہ جاہلی معاشرے کی نظریاتی تشکیل سے مختلف ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کے افراد اور گروہ وہ نہیں ہوتے جو موجودہ معاشرے کے ہیں۔ اس کے افراد بالکل مختلف اور اس کے گروہ بالکل دوسرے ہوتے ہیں۔ اس کے افراد اور گروہوں کی اخلاقی قدریں تحریک کے دوران وجود میں آتی ہیں اور وہ بہت ہی مختلف اور عملی ہوتی ہیں۔

یہ ایک جدید اور نیا معاشرہ ہوتا ہے۔ یہ دائماً حرکت میں رہتا ہے۔ ترقی پذیر ہوتا ہے اور اس کے انسان ، پورے کرۂ ارض کے مقابلے میں آزاد انسان ہوتے ہیں۔ وہ اس کرۂ ارض پر کسی کے غلام نہیں ہوتے اور اس معاشرے سے طاغوتی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔

یہ مسئلہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل مثلاً اپنے آپ کو کسی منصب کا اہل بتانا ، منصب طلب کرنا ، امام کا انتخاب ، اہل شوریٰ کا انتخاب اور اس جیسے دوسرے مسائل کے بارے میں لوگ عموماً خلا میں سوچتے ہیں۔ یہ مسائل اور جاہلی معاشروں میں ان کا نفاذ ، یہ سوچ ہی متضاد ہے۔ خصوصاً جبکہ یہ جاہلی معاشرہ اپنی عضویاتی ترکیب میں اسلامی معاشرے سے کلیۃً متضاد ہو۔ اس کی اقدار ، اخلاقی پیمانے ، تصورات اور سوچیں سب کی سب اسلامی معاشرے سے الٹ ہوں۔

موجودہ دور کے بینک اور ان کی تمام سرگرمیاں ، انشورنس اور اس کے قواعد و ضوابط ، ضبط تولید کے مسائل اور اس قسم کے دوسرے عقدے جن کو یہ محققین کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے بارے میں صحیح حل موجودہ سوسائٹی میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ان موضوعات پر آغاز بحث ہی سے محقق پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی سعی یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے قواعد وقوانین کو موجودہ جاہلی اور گندے معاشرے میں نافذ اور جاری کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور یہ معاشرہ سو فیصد اسلامی احکام سے متضا د ہے۔ اس لئے ایسے محققین کو ان میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کو نافذ کر کے یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ جاہلی معاشرے اسلامی بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت ہی مضحکہ خیز سوچ ہے۔

حقیقت یہ ہے اسلامی معاشرے کو فقہ اسلامی نے وجود نہیں بخشا بلکہ اسلامی معاشرے کی تحریکی جدو جہد اور تحریک اسلامی اور جاہلیت کے درمیان طویل کشمکش کے نتیجے میں اسلامی معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد اور ایک اسلامی معاشرے کی عملی ضروریات سامنے آنے کے بعد اسلامی فقہ اس کے احکام اور اس کے اصول وجود میں آئے۔ لہٰذا دور جدید میں بھی فقہ اسلامی کا وجود اس طرح آسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے ذریعے اسلامی سوسائٹی وجود میں لائی جائے۔ اس کے برعکس ممکن ہی نہیں ہے۔

یاد رکھئے کہ فقہ اسلامی اور اسلامی شریعت کا نفاذ خلاء میں ممکن نہیں ہے ، نہ خلاء میں کوئی بھی قانون قائم رہ سکتا ہے۔ اسلامی شریعت دماغوں اور کتابوں میں قائم نہیں ہو سکتی ، یہ تو ایک عملی زندگی کا عملی ضابطہ ہے اور ضابطہ بھی ہر عملی زندگی کا نہیں بلکہ ایک اسلامی زندگی کا ضابطہ ہے۔ ایک اسلامی سوسائٹی کی فضا ہی میں اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قانون نافذ ہو سکتا ہے۔

جس وقت اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا اور وہ بھی ایک تحریکی شکل میں وجود میں آئے گا تو اس وقت اسے بینکوں اور تجارتی اداروں کی ضرورت درپیش ہوگی یا نہ ہوگی ، یہ سوال اس وقت پیدا ہوگا۔ اب جبکہ اسلامی معاشرہ سرے سے وجود میں بھی نہیں ہے ، وقت سے پہلے ہم اس معاشرے کی ضروریات کو کس طرح معلوم کرسکتے ہیں۔ نہ اس وقت کے معاشرے کی شکل یا اس کے حجم کے بارے میں کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ وقت سے قبل ہم کسی معاشرے کے لئے قانون سازی کیسے کرسکتے ہیں۔ اس وقت اسلامی شریعت کے جو احکام مدون ہیں ، وہ ایک جاہلی اور کافرانہ معاشرے میں نافذ ہی نہیں ہوسکتے ، کیونکہ اسلامی شریعت موجودہ جاہلی اور کافرانہ سو سائٹیوں کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتی ، اسے ان جاہلی سوسائٹیوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔

اس قسم کے محققین جس مصیبت میں گرفتار ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ جاہلی معاشروں کو اصل سمجھتے ہیں اور دین اسلام کو ان کے تابع سمجھتے ہوئے ، اسے ان کے مطابق بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن حقیقی صورت حالات اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام اصل ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم جدید سوسائٹی کو دین اسلام کے تابع بناتے چلے جائیں۔ یہ کام صرف ایک ہی ذریعے سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جاہلیت کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے تحریک برپا کی جائے۔ یہ تحریک اس کرۂ ارض پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لئے ہو۔ اللہ کی حاکمیت کا نظام ہوتا ہی وہ ہے جس میں لو اللہ کے سوا کسی کے تابع فرمان نہیں ہوتے۔ وہ کسی طاغوت کے تابع نہ ہوں اور ان کی زندگیوں میں صرف شریعت کی حکمرانی ہو۔ جب بھی کوئی یہ تحریک برپا کرے گا اسے فتنوں ، آزمائشوں اور تشدد کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ جب اس قسم کی تحریک پر تشدد ہوگا تو کچھ لوگ ان مشکلات کو برداشت کریں گے ، کچھ لوگ الٹے پاؤں پھرجائیں گے اور کچھ لوگ اللہ کے پیغام کی تصدیق کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوں گے جبکہ کچھ لوگ یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اللہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان صحیح فیصلہ نہیں فرما دیتے۔ جب اللہ ان انقلابیوں اور ان کی اقوام کے درمیان فیصلہ کر دے گا تو ان کو تمکن فی الارض نصیب ہوگا اور اس وقت ہی اسلامی نظامی زندگی صحیح معنوں میں قائم ہوگا ۔ اس وقت تمام لوگ اسلام میں رنگے ہوں گے اور وہ اسلامی اقدار کو لے کر اس دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرچکے ہوں گے۔ اس وقت پھر اس سوسائٹی کی کچھ ضروریات اور تقاضے ہوں گے اور یہ ضروریات اور تقاضے دوسری جاہلی سو سائٹیوں سے بالکل مختلف ہوں گے۔ ان ضروریات اور تقاضوں کے پورے کرنے کے انداز بھی مختلف ہوں گے ۔ اس وقت اسلامی نظام زندگی کے احکام کا استنباط ایک قائم سوسائٹی کے لئے ہوگا ، ایک اسلام فقہ اور شریعت وجود میں آئے گی ۔ یہ شریعت خلاء میں نہ ہوگی بلکہ یہ شریعت ایک متعین اور موجود سوسائٹی میں نافذ ہوگی اور اس سو سائٹی کے مقاصد اور ضروریات بھی متعین ہوں گی۔

ہمیں کوئی بتائے کہ وہ سو سائٹی اس دنیا میں کہا ہے جس میں نظام زکوٰۃ نافذ ہو اور زکوٰۃ لی جاتی ہو اور اسے اپنے حقیقی مصارف پر خرچ کیا جاتا ہو اور جس کے ہر محلے میں باہم محبت ، رحمت اور نظام تکافل قائم ہو ، پھر پوری سوسائٹی میں تکافل (Social Security) کا نظام قائم ہو اور اس سوسائٹی کا مالی نظام اسراف ، تعیش ، خود نمائی اور زر اندوزی پر قائم نہ ہو۔ اس کا مالی نظام صحیح اسلامی خطوط پر قائم ہو ، پھر اگر ایسا کوئی نظام قائم ہوجائے اور ایسی سو سائٹی وجود میں آجائے تو ثابت کیا جائے کہ اس میں انشورنس کی ضرورت ہوگی اور انشورنس کے یہ ضابطے پھر اسلامی سوسائٹی کے حالات ، اس کی اقدار اور مالی تصورات کے مطابق ہوں گے۔ اگر اسلامی سوسائٹی کو کسی انشورنس کی ضرورت بھی پڑے تو ثابت کیا جائے کہ اسے بعینہ اسی طرح ہونا لازمی ہے جس طرح کہ موجودہ جاہلی معاشروں میں انشورنس کا نظام موجود ہے۔ جو موجودہ جاہلی سوسائٹی جاہلی تصورات اور اقدار پر مبنی ہے اور اسے جاہلی سوسائٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔

پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ایک متحرک اسلامی معاشرہ تحدید نسل اور ضبط تولید کا محتاج ہوگا جس طرح موجودہ غیر اسلامی معاشرہ ہے۔

جب ہم موجودہ حالات میں ایک اسلامی سوسائٹی کی ضروریات کا تعین ہی نہیں کرسکتے ، نہ اس کی سوسائٹی کے حجم اور شکل کی کوئی متعین صورت ہمارے سامنے ہے ، اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ایک اسلامی سوسائٹی کی عضویاتی ترکیب ہی موجودہ جاہلی سوسائٹی سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ اس کی سوچ ، اس کی قدریں اور اس کے ۔۔۔۔ ہی مختلف ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت جو لوگ ایک غیر موجودہ سوسائٹی کے لئے احکام مدون کرنے کی سعی کر رہے ہیں ان کی یہ سعی نا مشکور ہوگی ، اس لئے کہ جس طرح اسلامی سوسائٹی اس وقت ہوا میں ہے اسی طرح ان لوگوں کی یہ مساعی بھی ہوا میں ہیں اور لا حاصل ہیں۔

جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے کہ اس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ یہ محققین موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرے سمجھتے ہیں اور وہ اسلامی فقہ کے اوراق سے احکام نکال کر ان معاشروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ معاشروں کے اجزاء ترکیبی کو وہ نہیں چھیڑتے اور ان معاشروں کی اقدار اور تصورات اور ۔۔۔ کو بھی جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔

پھر ان حضرات کے شعور اور لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ موجودہ جاہلی معاشرے اصل اور قائم حقیقت ہیں اور یہ دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی لا کر اپنے آپ کو ان کے مطابق کرلے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔۔۔ اس طرح دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ جدید جاہلی سوسائٹی کے تقاضے پورے کرے۔ حالانکہ جدید جاہلی سو سائٹی کے تقاضے سراسر اسلام کے خلاف ہیں اور یہ تقاضے ایک مسلمان کو سرے سے اسلام سے خارج کرنا چاہتے ہیں ”۔

میرا خیال یہ ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب اسلام اہل اسلام کے دل و دماغ میں سر بلند ہوجائے۔ اب اہل اسلام یہ روش ترک کردیں کہ اسلام جاہلی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرتا پھرے۔ داعیان اسلام کو اب یہ اعلان کردینا چاہئے کہ لوگو ! تم اسلام کے مطیع فرمان بن جاؤ، اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرو ، بلکہ یہ کہ لوگو ! سب سے پہلے تم دین اسلام میں داخل ہوجاؤ، اعلان کر دو کہ تم اب صرف اللہ کے بندے ہو ، اور کلمہ طیبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دو ، بایں معنی کہ اللہ کے سوا اس کرۂ ارض پر کوئی اور حاکم نہیں ہے۔ صرف وہی رب اور خالق ، مالک اور رازق ہے ۔ تمام لوگوں کی زندگی پر اسی کے احکام چلیں گے ۔ آئندہ کوئی انسان انسان کا غلام نہ ہوگا اور کوئی انسان کسی انسان کے لئے اب قانون نہیں بنائے گا۔

جب لو یہ اعلان کردیں گے تو اسلامی معاشرے کا پودا کونپل نکالے گا اور جب اس اعلان کی اساس پر کوئی سو سائٹی وجود میں آجائے گی تو اس میں پھر فقہ اسلامی کا اجراء ہوگا۔ اس وقت پھر فقہ اسلامی اس سوسائٹی کی تمام ضروریات کو پورا کرے گا اور عملاً اسلامی شریعت نافذ ہوگی۔

جب تک اسلامی انقلاب کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی قائم نہیں ہوجاتی اسلام کے دستوری اور انتظامی احکامات کے بارے میں دماغ سوزی کرنا محض اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ محض ہوا اور خلاء میں تخم ریزی کرنا ہے جبکہ کوئی قانون کبھی کسی خلاء میں نہیں اگتا جیسا کہ ہوا میں کوئی فصل نہیں اگتی۔

٭٭٭

اسلامی فقہ کے فکری میدان میں کام کرنا نہایت ہی دلچسپ کام ہے ، کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور ابتلاء نہیں ہے۔ لیکن یہ اسلامی کام نہیں ہے یعنی اسلام کے لئے نہیں ہے ، نہ یہ اس دین کے مزاج کے مطابق ہے نہ یہ اسلامی منہاج کار ہے ، اور یہ طریقہ صرف ان لوگوں کا ہے جو خیر و عافیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے محض علمی اور فنی امور میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تحریک کے اس مرحلے میں اسلامی فقہ کے موضوعات پر دماغ سوزی کرنا عمر ضائع کرنا ہے۔ موجودہ سوسائٹی کے ہوتے ہوئے میں سمجھتا ہوں اس میں کوئی اجراء ضروری نہ ہوگا۔

دین اسلامی جاہلیت کے لئے خرکاری کا کام نہیں کرتا ، نہ وہ جاہلیت کا بندہ فرمان بننا قبول کرتا ہے ، جس کا مشن صرف یہ ہو کہ جاہلیت کی خواہشات کے لئے ہر وقت وجہ جو از فراہم کرتا پھرے ۔ جبکہ یہ جاہلی سوسائٹی دین سے متنفر ، دین سے دور اور دین پر فقدان ہو اور دین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے یہ سو سائٹی دین سے اپنے اعمال کے لئے وجہ جواز مانگتی ہو۔

اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اس دین کی فقہ اور اس کے احکام نہ خلاء میں ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی خلاء میں رد بعمل آتے ہیں۔ اسلامی سوسائٹی ابتداءً اللہ کی حاکمیت کو قبول کرنے والی ہوتی ہے۔ یہی سوسائٹی دراصل فقہ کو وجود بخشتی ہے اور یہی سوسائٹی اس کو ترقی دیتی ہے ، یہ نہیں ہے کہ کوئی فقہی نظام سوسائٹی کو وجود بخشے۔

احیائے اسلام کے مراحل اور اس کا طریقہ کار آغاز ہی سے ایک ہی ہیں۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا تو سہل امر نہیں ہوتا اور یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ پہلے فقہی احکام کا کوئی سانچہ ڈھالا جائے اور اس کے مطابق انسان تیار ہوتے جائیں اور یہ سانحہ پہلے سے خلاء میں تیار کردیا گیا ہو اور جب اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی سوسائٹی تیار ہو تو اس میں اسے نافذ کردیا جائے۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا کسی قانونی نظام کی وجہ سے نہیں ہوا کرتا ۔ اس لئے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید قانونی نظام مفصل طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے۔ بعض لوگ اس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوا کرتے ہیں اور بعض اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی وجود میں اس لئے نہیں آرہی ہے کہ کچھ طاغوتی قوتیں اس کی راہ روکے کھڑی ہیں۔ یہ طاغوتی قوتیں اللہ کی حاکمیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اس سے کسی بھی اسلامی ملک میں اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت پر مبنی نظام وجود میں نہیں آرہا ہے۔ ان طاغوتی قوتوں نے دراصل لوگوں کو اپنا بندہ اور غلام بنا لیا ہے اور اس طرح یہ قوتیں اور ان کے تحت تمام جمہور عوام شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقی شرک ہے اور اس شرک کا تعلق اللہ رب العالمین کے مخصوص اختیارات کے ساتھ ہے۔

اس نظریہ کی اساس پر جاہلیت زمین پر اپنا ایک مستقل نظام برپا کرتی ہے۔ یہ نظام بھی ان جاہلی تصورات کی اساس پر قائم کرتی ہے اور اس میں جاہلی تصورات کے ساتھ ساتھ مادی قوتوں پر بھی بھروسہ کرتی ہے۔

اس قائم نظام کا مقابلہ احکام فقہیہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ نہ احکام فقہیہ اس جاہلی نظام اور اس کے تصورات کے لئے برابر کی قوت ہوتے ہیں۔ اس جاہلیت کا مقابلہ صرف اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو از سر نو اسلام میں داخل ہونے کی طرف دعوت دی جائے ۔ اور پھر اسلامی تصورات کے ساتھ تمام قوتوں کو لے کر جاہلیت کا مقابلہ کیا جائے۔ اس میدان کے اندر اسلام اور جاہلیت کی کھلی کشمکش کے بعد جو نتیجہ بھی ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔ کچھ لوگ صحیح طرح اسلام کے حال ہوں گے اور باقی قوم ان کے مخالفت ہوگی اور اس کشمکش کے نتیجے میں پھر تحریک اسلامی اور اس کی قوم کے درمیان اللہ اپنا فیصلہ لاتا ہے۔ جب تحریک اسلامی غالب آکر کر اسلامی سوسائٹی قائم کردیتی ہے تو پھر فقہی احکام کی تدوین کا وقت آتا ہے ۔ اس طرح جو قانون نظام برپا ہوتا ہے وہ نظام اپنی حقیقی فضا میں نہایت ہی قدرتی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک زندہ اسلامی معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اور اس نئی سوسائٹی کی حقیقی ضروریات کے لئے قانون سازی ہوتی ہے۔ اور اس میں قانون کا حجم اور اس کی شکل قدرتی ہوتی ہے۔ اب یہ سوسائٹی اور اس کی ضروریات ہمارے پیش نظر موجود نہیں ہیں اور انقلاب کے بعد وجود میں آنے والی سوسائٹی کے بارے میں ابھی تک ہم کوئی پیشین گوئی بھی نہیں کرسکتے۔ نہ ہی اس کی ضروریات کو ہم متعین کرسکتے ہیں۔ لہٰذا قبل از وقت اسلامی قانون کی تدوین و ترتیب کے کام میں ابھی سے مشغول ہونا یا اس کا مطالبہ کرنا ، دین اسلام کی سنجیدگی اور متانت کے منافی ہے۔

میرے اس نکتے کے بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرآن اور سنت میں جو قائم منصوص احکام ہیں وہ اس وقت قانوناً نافذ نہیں ہیں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام اسلامی سوسائٹی کے لئے نازل ہوئے تھے اور ان کو ایک اسلامی معاشرے کے اندر ہی نافذ بھی ہونا ہے۔ یہ احکام اس وقت عملاً نافذ نہیں ہیں۔ یہ احکام عملاً تب ہی نافذ ہو سکتے ہیں جب کوئی اسلامی معاشرہ قائم ہو اور اسلامی معاشرے کا قیام ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس وقت جاہلی معاشرے میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے تا کہ اس میں اسلام کا قانونی نظام نافذ ہو سکے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو دین کو لے کر ایک تحریک کی شکل میں اٹھیں اور ان طاغوتی قوتوں کو ۔۔۔۔ کریں جنہوں نے اس طاغوتی نظام کو قائم کر رکھا ہے اور لوگ اللہ وحدہ کی اطاعت کے بجائے مشرک ہو کر ان طاغوتی قوتوں کی اطاعت میں مبتلا ہیں۔

احیائے دین کے سلسلے میں اس نکتے کو جب لوگ پالیں گے کہ جب جاہلی نظام قائم ہو تو اس کے مقابلے میں اسلامی تحریک کا برپا کرنا ضروری ہے تو اس ادراک کے نتیجے ہی میں اسلامی انقلاب کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر لوگ احیائے اسلام کی تعمیری جدو جہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اسلامی قانون کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے لی ہے ، اسلامی نظامی قائم نہیں رہا ہے اور یہ کرۂ ارض حقیقی اسلام سے خالی ہوگیا ہے۔ اگرچہ اذان خانے باقی ہیں اور مساجد باقی ہیں ، دعائیں ہو رہی ہیں اور نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دو سو سال سے یہی صورت حال ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس دین کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہے اور یہ نماز اور یہ دعا ان کے اندر یہ تسکین پیدا کردیتی ہے کہ اسلام بخیر و عافیت ہے ، حالانکہ اس کرۂ ارض سے طاغوتی قوتیں اس کا وجود مٹانے کے درپے ہیں۔

میں کہتا ہوں ، اسلامی عبادات سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ مساجد سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ یہ معاشرہ اور یہ سوسائٹی اس وقت وجود میں آگئی تھی کہ جب ان سے کہا گیا تھا اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ “ اللہ ہی کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لئے کوئی الٰہ نہیں ہے “ ۔ یاد رہے کہ یہ لوگ جو ان بتوں کی بندگی کرتے تھے تو یہ ان کی نمازیں اور ان کے روزے تو نہ رکھتے تھے ، نماز اور روزہ تو اس آیت کے نزول کے وقت فرض ہی نہ تھے ۔ صرف اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ صرف اللہ کو اپنا حاکم تصور کرو ، اور اس وقت کوئی اسلامی قانون نظام بھی نہ تھا۔ اور جب لوگوں نے اللہ کو اس زمین پر اپنا حاکم تسلیم کرلیا تو پھر حاکم کی طرف سے شریعت آگئی ۔ یہ شریعت بھی اس طرح آئی کہ جب بھی اس اسلامی سوسائٹی کو کسی قانون کی حقیقی ضرورت درپیش ہوئی تو قانون نازل ہوگیا یا انہوں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں خود اپنے لئے قانون کا استنباط کرلیا۔۔۔ یہی ہے واحد منہاج کار اور قیامت تک کے لئے یہی منہاج رہے گا۔

اسلامی انقلاب کا اس سے آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ایک تقریر کرے ، اسلام کے احکام بیان کر دے اور اسلامی قانون کی تشریح کر دے۔ لوگ یکدم اسلام میں داخل ہوجائیں اور قصہ تمام شد۔ لیکن یہ طریقہ کار محض تمنا ہے۔ ایک اچھی خواہش ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عوام الناس طاغوتی قوتوں اور جاہلیت کو چھوڑ کر اسلامی نظام میں صرف اسی طریقہ کار کے مطابق ہی داخل ہوسکتے ہیں اور وہ طریقہ کار ایک دیرپا ، تدریجی اور دعوت اسلامی کا طریقہ کار ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فرد دعوت اسلامی کا آغاز کرتا ہے ، ایک ہر اول دستہ اس کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ ہر اول دستہ موجود اور قائم نظام جاہلیت کو ۔۔۔ کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے اور اس نظام جاہلیت کے درمیان کشمکش برپا ہوجاتی ہے۔ ایک قوم بلکہ معاشرے کی پوری قوم کے ساتھ اسی قوم سے اٹھے ہوئے ان داعیوں کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ اللہ اس ہر اول دستے کو فتح دیتا ہے اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور یہ دین اسلام کیا ہے ؟ یہ اللہ کا وہ نظام ہے جس کے سوا اللہ کسی نظام کو برداشت نہیں کرتا۔

ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “ اور جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی نظام زندگی کی تابع داری کرے گا ، اس سے یہ تابع داری قبول نہ کی جائے گی ”۔

شاید یہ طویل بیان حضرت یوسف (علیہ السلام) کے موقف کو اچھی طرح واضح کر دے گا۔ یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کسی اسلامی سوسائٹی میں نہیں تھے جس میں کسی شخص کے لئے طلب عہدہ کا کوئی موقعہ نہ ہو ، اور اس میں کوئی شخص کوئی منصب نہ طلب کرسکتا ہو۔ دوسری جانب وہ دیکھ رہے تھے کہ اس غیر اسلامی نظام میں انہیں ایک ایسا منصب مل رہا ہے جس میں تمام اختیارات ان کے ہاتھ آرہے ہیں اور وہ اس حاکم طاع ہوں گے ، اس طرح انہیں موقعہ ملے گا کہ وہ اپنے عقائد پورے مصر میں پھیلا دیں۔ چناچہ عملاً ایسا ہی ہوا کہ ان کے دور اقتدار میں پورے مصر میں عقیدۂ توحید پھیل گیا۔ اس دور میں حضرت یوسف (علیہ السلام) مصری سوسائٹی پر اس طرح چھا گئے کہ اعیان مصر اور بادشاہ مصر دونوں پس منظر میں چلے گئے۔

تعظيم تجربتك مع موقع Quran.com!
ابدأ جولتك الآن:

٠%