قال يا قوم ارهطي اعز عليكم من الله واتخذتموه وراءكم ظهريا ان ربي بما تعملون محيط ٩٢
قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَهْطِىٓ أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَٱتَّخَذْتُمُوهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّى بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌۭ ٩٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 92 قَالَ يٰقَوْمِ اَرَهْطِيْٓ اَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ حقیقت میں میرا پشت پناہ تو اللہ ہے۔ تم اللہ سے نہیں ڈرتے لیکن میرے خاندان سے ڈرتے ہو۔ کیا تمہارے نزدیک میرا خاندان اللہ سے زیادہ طاقتور ہے ؟وَاتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَاۗءَكُمْ ظِهْرِيًّایعنی اللہ کو تو تم لوگوں نے بالکل ہی بھلا چھوڑا ہے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ آج ہم بھی اللہ کو اپنا خالق مالک اور معبود ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی دنیا اور اس کے جھمیلوں میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ اللہ کا تصور مستحضر نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کاروبار دنیا میں حقیقی مسبب الاسباب کو بھلا کر اسباب و حقائق cause and fact کی منطقی بھول بھلیوں میں گم رہتے ہیں : کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق !یہاں حضرت شعیب کا اپنے خاندان کے مقابلے میں اللہ کا ذکر کرنا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ لوگ اللہ کو بخوبی جانتے تھے ‘ اسی طرح مشرکین مکہ بھی اللہ کو مانتے تھے۔ گویا اللہ کا معاملہ ایسے لوگوں کے نزدیک آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو حضرت شعیب نے فرمایا تھا کہ تم لوگ میرے خاندان سے ڈرتے ہو مگر اللہ سے نہیں ڈرتے ! حضرت شعیب کے اس جواب میں قریش کے لیے یہ پیغام مضمر ہے کہ تمہیں بھی محمد رسول اللہ کی طرف سے یہی جواب ہے۔ اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌاللہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا گھیراؤ کیے ہوئے ہے۔ تم اس کی گرفت سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے ہو۔