قوم نے حضرت ہود سے کہا کہ تمھارے پاس اپنے برسر حق ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع بھی حضرت ہود کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ آنجناب کے پاس یقینا ًدلیل تھی، مگر وہ مخاطبین کو دلیل دکھائی نہیں دیتی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آدمی عام طورپر کسی بات کو خالص دلیل کی بنیادوں پر جانچ نہیں پاتا بلکہ اس اعتبار سے دیکھتاہے کہ جو شخص اس کو پیش کررہا ہے وہ کیساہے۔ چوں کہ پیش کرنے والا اپنے زمانہ میں لوگوں کو ایک ناقابلِ لحاظ انسان دکھائی دیتا تھا اس لیے اس کی بات بھی لوگوں کو ناقابلِ لحاظ نظر آتی تھی۔
جب ایک شخص وقت کے جمے ہوئے مذہب کو چھوڑ کر خالص بے آمیز دین کی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ماحول میں وہ اجنبی بلکہ حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ لوگ اس کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی ایسا شخص ہو جس کو خللِ دماغی کا عارضہ لاحق ہوگیا ہو۔ حضرت ہود کے معاملہ میں یہی صورت حال تھی جس کی وجہ سے ان کی قوم کے لوگوں کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ ’’ہمارا تو خیال ہے کہ تمھارے اوپر ہمارے بزرگوں کی مار پڑ گئی ہے‘‘۔ مگر داعیٔ حق کی صداقت کا ثبوت، نظری دلائل کے بعد، ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے مخالفین ہر قسم کی کوششوں کے باوجود اس کو زیر نہیں کرپاتے۔
خدا کے پیغمبر جن قوموں میں آئے وہ سب خدا کو ماننے والی تھیں۔ گویا داعی بھی خدا پرست ہونے کا مدعی تھا اور مدعو بھی خدا پرست ہونے کا مدعی۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ خدا دونوں میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے۔ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ خدا صراط مستقیم (سیدھی شاہراہ) پر ہے۔ اس لیے جو دین کے سیدھے خط پر چل رہا ہے وہ براہِ راست خدا تک پہنچے گا اور جو ٹیڑھے راستوں پر چل رہا ہے اس کا راستہ اِدھر اُدھر بھٹک کر رہ جائے گا۔ وہ خدا تک پہنچنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
حضرت ہود نے جب کہاکہ’’ میرا رب صراطِ مستقیم پر ہے ‘‘تو دوسرے لفظوں میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میں جس چیز کی طرف بلا رہا ہوں وہ صراطِ مستقیم (دین کی شاہراہ) ہے۔ اور تم لوگ جن چیزوں کو دین سمجھ کر اختیار كيے ہوئے ہو وہ دین کی شاہراہ کے اطراف میں پگڈنڈیاں نکال کر ان کے اوپر دوڑنا ہے۔ اس قسم کی دوڑ آدمی کو خدا تک نہیں پہنچاتی، وہ اس کو ادھر ادھر بھٹکا کر چھوڑ دیتی ہے۔
اِن آیات کی روشنی میں غور کیا جائے تو حضرت ہود کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم یہ نکلتی ہے— توحید، عبادتِ الٰہی، استغفار، توبہ، نعمتوں پر خدا کا شکر، توکل علی اللہ، خدا کو اپنا پروردگار ماننا، صرف خدا کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھنا، خدا کو اپنے اوپر نگراں بنا لینا۔ کبر کی روش کے بجائے اطاعت کی روش اختیار کرنا۔
یہ سب دین کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ ان تعلیمات پر چلنا اور ان کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا گویا دین کی شاہراہ پر چلنا ہے۔ اس پر چلنے والا سیدھے خدا تک پہنچتاہے۔ اس کے سوا جن چیزوں کو آدمی اہمیت دے اور ان کی دھوم مچائے وہ گویا اصل شاہراہ کے دائیں بائیں پگڈنڈیاں نکال کر ان کے اوپر دوڑ رہا ہے۔ ایسی دوڑ آدمی کو صرف خدا سے دور کرنے والی ہے، وہ اس کو خدا کے قریب نہیں پہنچا سکتی۔