أنت تقرأ تفسيرًا لمجموعة الآيات 11:50إلى 11:52
والى عاد اخاهم هودا قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من الاه غيره ان انتم الا مفترون ٥٠ يا قوم لا اسالكم عليه اجرا ان اجري الا على الذي فطرني افلا تعقلون ٥١ ويا قوم استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يرسل السماء عليكم مدرارا ويزدكم قوة الى قوتكم ولا تتولوا مجرمين ٥٢
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًۭا ۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ ٥٠ يَـٰقَوْمِ لَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱلَّذِى فَطَرَنِىٓ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ٥١ وَيَـٰقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ ٥٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

قوم عاد کی ہدایت کے لیے حضرت ہود کو اٹھایا گیا جو انھیں کے بھائی تھے۔یہ پیغمبروں کے باب میں ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ قوم کا فرد ہونے کی وجہ سے وہ بخوبی طورپر قوم کی نفسیات، اس کے حالات اور اس کی زبان کو جانتے ہیں اور زیادہ موثر طورپر اس کے اندر دعوت حق کا کام کرسکتے ہیں۔

حضرت ہود نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا پیغام دیا۔ اسی کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کہا کہ تمھارا جو دین ہے وہ محض ایک جھوٹ ہے جو تم نے گھڑ لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کا طریقہ معروف معنوں میں صرف ’’مثبت طور پر‘‘ اپنی بات کہنے کا طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ اسی کے ساتھ وہ کھلی کھلی تنقید بھی کرتاہے۔ کیوں کہ جب تک تنقید و تجزیہ کے ذریعہ ناحق کا ناحق ہونا واضح نہ کیا جائے اس وقت تک حق کا حق ہونا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

ہر پیغمبر کے زمانہ میںایسا ہوا کہ اس کے مخالفین اس کی پیغمبری کو ماننے کے لیے یہ چاہتے تھے کہ وہ کوئی بڑا عہدیدار ہو، اس کو دولت کے خزانے حاصل ہوں، وہ عالی شان عمارتوں میں رہتا ہو۔ مگر حق کے داعی کو جانچنے کا یہ معیار صحیح نہیں۔ داعی کی صداقت جانچنے کا اصل معیا ر یہ ہے کہ وہ اپنے مشن میں پوری طرح سنجیدہ ہو، اس کی بات آخری حد تک مدلّل ہو۔ وہ ہر قسم کی دنیوی غرض سے بالا تر ہو۔ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ عین حقیقتِ واقعہ ہو۔ اس کا پیغام کائناتی نظام سے کامل مطابقت رکھتا ہو۔ اس کو اختیار کرنا کامیابی کی شاہراہ پر چلناہو۔

تمھاری قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ اس فقرہ کا مطلب مادی قوت میں اضافہ نہیں ہے۔ کیونکہ قوم عاد اپنے زمانہ میں نہایت طاقت ور تھی۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر نے جب ان کوعذاب سے ڈرایا تو انھوں نے کہا کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے (مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً، حم السجدۃ، 41:15 )۔ اس لیے مادی قوت میں اضافہ کی بات، دعوتی اعتبار سے ان کے لیے زیادہ پرکشش نہیں ہوسکتی تھی۔

اِس آیت میں قوت پر اضافہ کا مطلب ہے مادی قوت پر ایمانی قوت کا اضافہ۔ پیغمبر کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم ایمانی زندگی اختیار کر لو تو اس سے تم کو اخلاقی اور روحانی قوت حاصل ہوگی۔ موجودہ مادی زور کے ساتھ اخلاقی اور روحانی زور ملنے سے تمھاری طاقت گھٹے گی نہیں بلکہ وہ مزید بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔