فان كنت في شك مما انزلنا اليك فاسال الذين يقرءون الكتاب من قبلك لقد جاءك الحق من ربك فلا تكونن من الممترين ٩٤
فَإِن كُنتَ فِى شَكٍّۢ مِّمَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ فَسْـَٔلِ ٱلَّذِينَ يَقْرَءُونَ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَآءَكَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ ٩٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

فان کنت فی شک مما انزلنا الیک پس (اے انسان ! ) اگر تجھے شک ہو اس (قرآن و ہدایت) میں جو ہم نے (اپنے رسول محمد (ﷺ) کی زبانی) تیری طرف بھیجا ہے۔ (1) [ حضرت مفسر نے کنت کا مخاطب ہر انسان کو اس لئے قرار دیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کو تو کوئی شک ہی نہ تھا۔ آپ کے پاس وحی آئی ‘ قرآن اترا ‘ احکام خداوندی نازل ہوئے۔ آپ کو اپنی جگہ ناقابل شک یقین اور ایسا ایمان تھا جس میں کسی وہم کی گنجائش نہ تھی ‘ پھر اہل کتاب سے تصدیق طلب کرنے کا کوئی معنی ہی نہیں۔ ہاں جاہل مشرک کے پاس اگر عقلی اور وجدانی شہادت نہ ہو تو وہ اہل علم سے تصدیق طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے ‘ اسلئے عام انسان کو خطاب فرمایا۔]

فسئل الذین یقرء ون الکتب من قبلک تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے (ا اللہ کی) کتاب (توریت و انجیل) پڑھتے تھے۔ حضرت ابن عباس ‘ مجاہد اور ضحاک نے فرمایا کہ اہل کتاب سے مراد ہیں وہ اہل کتاب جو ایمان لے آئے تھے ‘ جیسے عبد اللہ بن سلام اور آپ کے ساتھی۔ یعنی ایمان دار اہل کتاب سے پوچھ لے ‘ وہ شہادت دیں گے کہ جس کتاب (ورسول) کا وعدہ توریت و انجیل میں کیا گیا تھا ‘ وہ یہی ہے۔ بیان قصص اور اصول احکام کی تعلیم میں سابق کتابوں کے موافق ہے۔

رسول اللہ (ﷺ) کے زمانہ میں سچے ایماندار اور اندرون قلب سے انکار و تکذیب کرنے والے۔ یہ دو گروہ تو موجود ہی تھے ‘ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو تصدیق و تکذیب کے درمیان شک میں پڑا ہوا تھا ‘ اسی کو آیت میں خطاب ہے۔

آیت میں درپردہ تعلیم ہے اس بات کی کہ اگر کسی کو دین کی صداقت میں کوئی شک و شبہ پیدا ہوجائے تو اس کو علماء حق کی طرف رجوع کر کے پوچھنا چاہئے۔

بعض اہل تفسیر کے نزدیک کُنْتَ سے خطاب رسول اللہ (ﷺ) کو ہے اور مطلب یہ ہے کہ بالفرض اگر آپ کو شک ہو ‘ یا اس کلام سے مقصود ہے رسول اللہ (ﷺ) کو ایمان پر جمائے رکھنا۔ اس قول کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو عبدالرزاق اور ابن جریر نے بیان کی ہے کہ قتادہ نے کہا : ہم کو اطلاع ملی ہے کہ (اس آیت کے نزول کے بعد) رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : مجھے نہ کوئی شک ہے نہ میں (شک دور کرنے کیلئے) کسی سے کچھ پوچھوں گا۔

بعض علماء نے کہا : خطاب تو رسول اللہ (ﷺ) کو ہے مگر روئے خطاب دوسرے لوگوں کی طرف ہے۔ عرب کا (بلکہ ہر زبان والوں کا) قاعدہ ہی یہ ہے کہ گفتگو میں مخاطب کسی شخص خاص کو کرتے ہیں مگر مراد اس شخص کی ذات نہیں ہوتی ‘ دوسرے لوگ مراد ہوتے ہیں۔ مختلف آیات میں یہ طرز خطاب اختیار کیا گیا ہے۔ ایک آیت ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیِّ اتَّقَ اللّٰہَ اے نبی ! اللہ سے ڈر۔ آیت میں مخاطب رسول اللہ (ﷺ) ہیں مگر مراد خطاب دوسرے مؤمن ہیں کیونکہ اس کے آگے آیا ہے : اِنَّ اللہ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاتم لوگ جو کچھ کرتے ہو ‘ اللہ اس سے باخبر ہے۔ اس آیت میں تعملون فرمایا ‘ یعنی جماعت کو خطاب کیا۔ دوسری آیت ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ اے نبی ! جب تم طلاق دو عورتوں کو (خطاب نبی (ﷺ) کو ہے اور حکم مؤمنوں کو دیا گیا ہے اور طلقتم جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے) ۔

فراء نے کہا : اللہ کو معلوم تھا کہ اس کے رسول کو شک نہیں ہے لیکن عرب محاورہ کے مطابق طرز کلام اختیار کیا گیا۔ بعض لوگ اپنے غلام سے کہتے ہیں : اگر تو میرا غلام ہے تو میرے حکم کی تعمیل کر۔ اگر تو میرا لڑکا ہے تو یہ کام کر (ظاہر ہے کہ حکم دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ غلام کو اپنے غلام ہونے میں اور بیٹے کو بیٹا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا ‘ پھر بھی اگر کا لفظ بولتا ہے ‘ مگر یہ لفظ شکیہ نہیں ہوتا۔

لقد جاءک الحق من ربک بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آپہنچی۔ یعنی جو کچھ ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ‘ وہ حق ہے ناقابل شک۔ روشن دلائل اور قطعی آیات سے اس کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا ثابت ہے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

فلا تکونن من الممترین پس آپ شک میں پڑجانے والوں میں نہ ہوجائیں کہ جو یقین آپ کو حاصل ہے ‘ اس میں تذبذب پیدا کرلیں اور تردد میں پڑجائیں۔