الذين امنوا وكانوا يتقون ٦٣
ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ ٦٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

الذین امنوا سے اشارہ فرمایا : اولیا اللہ وہ ہیں جو ایمان لے آئے ‘ یعنی حقیقت ایمان ان کے اندر پیدا ہوگئی۔ ایمان کا محل قلب ہے۔ کمال ایمان یہ ہے کہ اللہ کی یاد سے دل میں اطمینان پیدا ہوجائے ‘ اللہ کے ذکر سے لمحہ بھر غافل نہ ہو ‘ کسی دوسرے کی طرف توجہ ہی نہ ہو۔ دوسرے مرتبہ کی طرف اشارہ فرمایا۔

وکانوا یتقون۔ اور (شرک و معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ کے اوامرو نواہی کی ظاہری اور باطنی ہر طرح پابندی کرتے ہیں۔

ابو داؤد نے حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ انبیاء ہیں نہ شہدا لیکن قیامت کے دن ان کے مرتبۂ قرب کو دیکھ کر انبیاء اور شہدا ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! وہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : جو بندگان خدا سے محض اللہ کیلئے محبت رکھتے ہیں۔ اس میں نہ ان کی باہم رشتہ داریاں ہیں نہ مالی لین دین (کہ قرابت یا مالی لالچ کی وجہ سے ایک کو دوسرے سے محبت ہو) خدا کی قسم ! انکے چہرے (قیامت کے دن جسم) نور ہوں گے ‘ بالائے نور۔ جب اور لوگوں کو (عذاب کا) خوف ہوگا ‘ ان کو خوف نہ ہوگا۔ جب اور لوگ غم میں مبتلا ہوں گے ‘ وہ غمگین نہیں ہوں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : اَلاآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَ خوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھمْ یَحزَنُوْنَ بغوی نے ابو مالک اشعری کی روایت سے بھی یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہی لکھا ہے۔

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سے آیت الاآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ کا معنی دریافت کیا گیا۔ فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ ابن مردویہ نے حضرت جابر کی روایت سے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

حصول ولایت کے ذرائع

مرتبۂ ولایت کا حصول رسول اللہ (ﷺ) کی پرتو اندازی سے ہوتا ہے ‘ خواہ عکس رسالت براہ راست پڑے ‘ یا کسی ایک واسطہ سے ‘ یا چند واسطوں سے۔ رسول اللہ (ﷺ) یا آپ کے نائبوں سے محبت اور ان کی ہم نشینی و اطاعت حصول ولایت کیلئے ضروری ہے ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے قلب ‘ نفس اور جسم کا رنگ ولی کے قلب ‘ قالب اور جسم پر ان ہی دونوں اوصاف کی وجہ سے چڑھ جاتا ہے اور یہی صبغۃ اللہ ہے جس کے متعلق فرمایا : صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً طریق مسنون کے مطابق ذکر اللہ کی کثرت عکس پذیری کیلئے مددگار ہوتی ہے ‘ اس سے دل کا میل دور ہوجاتا ہے اور آئینۂ قلب کی صفائی ہو کر عکس پذیری کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ہر چیز کی منجھائی ہوتی ہے اور دل کو مانجھنے والا اللہ کا ذکر ہے۔ رواہ البیہقی۔

عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص ۔ امام مالک ‘ امام احمد اور بیہقی نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا ‘ حضرت معاذ نے فرمایا : میں نے خود ‘ خود حضور (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ نے فرمایا : جو دو آدمی میرے لئے باہم محبت کرتے ہیں ‘ میرے لئے مل کر بیٹھتے ہیں ‘ میرے لئے خرچ کرتے ہیں ‘ ان سے میری محبت واجب ہوجاتی ہے۔

امام احمد ‘ طبرانی اور حاکم نے حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے آیا ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس شخص کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے مگر اس قوم (کے عمل) تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ فرمایا : آدمی کا شمار انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی۔ رسائی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے عمل اس قوم کے اعمال کی طرح نہ ہو سکے ہوں۔ صحیحین میں حضرت انس کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے۔

بیہقی نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو رزین نے بیان کیا : مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میں تجھے بتاؤں کہ اس کام کا مدار کس چیز پر ہے جس سے تجھے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل جائے (مدار خیر یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلسوں میں حاضری کی پابندی کر اور تنہائی ہو تو جہاں تک ہو سکے اللہ کے ذکر سے زبان کو ہلاتا رہ اور اللہ کے واسطے محبت اور اللہ کے واسطے نفرت کر (یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے محبت و عداوت رکھ ‘ ذاتی غرض کوئی نہ ہو) ۔

امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت ابو ذر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پیارا عمل یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کیلئے محبت اور بغض کیا جائے۔

اللہ کا محبوب کون ہے

اولیاء میں ایک جماعت اللہ کی محبوبیت کے درجہ پر بھی فائز ہوجاتی ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ جب کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل کو طلب فرما کر حکم دیتا ہے : میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی اس سے محبت کر۔ حسب الحکم حضرت جبرئیل اس بندے سے پیار کرنے لگتے ہیں ‘ پھر حضرت جبرئیل آسمان پر (اہل سمٰوات کو) ندا دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے ‘ تم بھی اس سے محبت کرو۔ حسب الارشاد اہل سماء اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

پھر زمین (والوں) میں اس کو مقبولیت عطا کردی جاتی ہے۔ اور جب اللہ کسی بندہ سے نفرت کرتا ہے تو حضرت جبریل کو طلب فرما کر حکم دیتا ہے : میں فلاں شخص سے نفرت کرتا ہوں ‘ تو بھی اس سے نفرت کر۔ حسب الحکم حضرت جبرئیل اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ‘ پھر آسمان والوں کو حضرت جبرئیل ندا کرتے اور کہتے ہیں : اللہ فلاں شخص سے نفرت کرتا ہے ‘ تم بھی اس سے نفرت کرو۔ لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ‘ پھر زمین والوں میں سے اس سے نفرت پیدا کردی جاتی ہے (اور زمین والے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں) ۔

فصل

اولیاء اللہ کی علامات کیا ہیں ؟

رسول اللہ (ﷺ) سے دریافت کیا گیا : اولیاء اللہ کون ہوتے ہیں ؟ فرمایا : جن کو دیکھنے سے اللہ کی یاد ہوتی ہے (بغوی) ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا : میرے بندوں میں میرے اولیاء وہ ہیں جن کی یاد میرے ذکر سے اور میری یاد ان کا ذکر کرنے سے ہوتی ہے (بغوی) ۔

حضرت اسماء بنت یزید نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے سنا : سنو ! کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے اچھے کون لوگ ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ضرور فرمائیے۔ فرمایا : جن کو دیکھنے سے اللہ کی یاد ہوتی ہے (رواہ ابن ماجہ) ۔

فائدہ : اس کا گریہ ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ سے قرب اور بےکیف مصاحبت حاصل ہوتی ہے ‘ اسی وجہ سے ان کی ہم نشینی گویا اللہ کی ہم نشینی اور ان کا دیدار اللہ کی یاد دلانے والا اور ان کا ذکر اللہ کے ذکر کا موجب ہوتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے سورج کے سامنے رکھا ہوا آئینہ جو سورج کی شعاعوں سے جگمگا جاتا ہے اور اس آئینہ کے سامنے جو چیز رکھی جاتی ہے آئینہ کی عکس ریزی سے وہ چیز بھی روشن ہوجاتی ہے ‘ بلکہ اگر روئی کو اس آئینے کے سامنے زیادہ قریب رکھا جائے تو آئینہ کے قرب کی وجہ سے روئی جل جاتی ہے اور سورج چونکہ دور ہوتا ہے ‘ اسلئے دھوپ میں روئی نہیں جلتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے اولیاء کے اندر اثر پذیری اور اثر اندازی کی قوی طاقت رکھی ہے۔ اللہ سے قرب اور بےکیف مناسبت رکھنے کی وجہ سے اولیاء میں اثر پذیری کی صلاحیت زیادہ قوی ہوتی ہے اور جنسیت نوعیت اور شخصیت کے اشتراک کی وجہ سے دوسرے ہم جنس ‘ ہم نوع اور مناسب التشخص افراد پر اثر اندازی کی استعداد بھی ان میں قوی ہوتی ہے۔ یہی تأثر و تاثیر کا تعلق اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ ان کا حضور ‘ اللہ کے سامنے حضور کا ذریعہ اور ان کو دیکھنا اور ان کے ساتھ بیٹھنا اللہ کی یاد کا موجب ہوتا ہے ‘ مگر شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے اور بیٹھنے والے کے دل میں انکار نہ ہو (منکروں کو کوئی فیض حاصل نہیں ہوتا) وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ اللہ ایمان و اطاعت کی حدود سے نکل جانے والوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ اللہ نے فرمایا : جس نے میرے ولی سے دشمنی کی ‘ میں نے اس کو (اپنی طرف سے) جنگ کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ

حضرت حنظلہ نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! جب ہم آپ کی خدمت میں موجود ہوتے ہیں اور آپ دوزخ اور جنت کی ہم کو یاد دلاتے ہیں تو گویا ہم اپنی آنکھوں سے جنت و دوزخ کو دیکھ لیتے ہیں ‘ لیکن جب آپ کے پاس سے نکل کر ہم باہر جاتے ہیں اور بیویوں ‘ بچوں اور زمینوں کے جھگڑوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ (جنت و دوزخ کو) بھول جاتے ہیں۔ فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ہر وقت تم اسی حالت پر رہو ‘ جس حالت پر میرے پاس اور میرے نصیحت کرنے کے وقت ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں ‘ مگر حنظلہ ! وقت ‘ وقت ہوتا ہے (ایک حضور کا وقت ‘ ایک غیبوبت کا وقت) یہ الفاظ حضور (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمائے۔ رواہ مسلم

فائدہ : عام لوگ کشف و کرامت کو ولایت کی خصوصی نشانی سمجھتے ہیں ‘ مگر یہ غلط ہے۔ بہت سے اولیاء کشف و کرامت سے خالی ہوتے ہیں اور کبھی بطور استدراج دوسرے لوگوں میں اولیاء کے علاوہ بھی خرق عادات اور انکشافات غیبی پایا جاتا ہے (اسلئے کشف و کرامت معیار ولایت نہیں ہے ( اگر بعض اولیاء سے اتفاقاً کشف و کرامت کا ظہور ہوجائے تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشف و کرامت معیار ولایت ہے۔ اللہ نے اپنے رسول مکرم (ﷺ) کو خطاب کر کے فرمایا : قلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَيَّ آپ کہہ دیجئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں تم جیسا انسان ہوں (مگر مجھے یہ امتیاز ہے کہ) میرے پاس وحی آتی ہے۔ دوسری جگہ خطاب کر کے فرمایا : قُلْ لَّوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓہُ اگر میں غیب داں ہوتا تو کثیر بھلائی سمیٹ لیتا اور برائی مجھے چھو بھی نہ جاتی۔ ایک جگہ اور خطاب فرمایا ہے : قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ آپ کہہ دیجئے کہ معجزات تو اللہ کے قبضہ میں ہیں۔

صوفیاء کرام کا قول ہے : کرامت تو مردوں کا حیض ہے ‘ اس کو چھپانا ہی ضروری ہے۔ کرامت کی وجہ سے ایک ولی کو دوسرے ولی پر فضیلت نہیں ہوتی ‘ اسی لئے جن اولیاء کے ہاتھوں سے کرامات کا ظہور زیادہ ہوا ان کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی۔