انسان یہ نہیں سوچتا کہ اسے دینے والا اور غنی کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔ اس سے قبل اسے پیدا بھی اللہ نے کیا اور تمام مخلوقات سے مکرم بھی بنایا اور اسے تعلم بھی دی لیکن انسان کا عمومی رویہ یہ ہے کہ جب اسے دیا جاتا ہے اور غنی بنا دیا جاتا ہے تو یہ بالمعموم شکر رب ادا نہیں کرتا الایہ کہ کسی کو اس کا ایمان اس ناشکری سے بچادے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو اس سرچشمے کا احساس بھی نہیں ہوتا جس سے یہ عطا اور غنا آرہی ہوتی ہے ، حالانکہ اس کو دینے والا اور غنی بنانے والا وہی ہوتا ہے جس نے اسے پیدا کیا ، عزت بخشی اور علم دیا۔ لیکن انسان نہ صرف یہ کہ اس منعم کا احساس مند نہیں ہوتا بلکہ وہ نہایت سرکشی اور فسق وفجور کی راہ اختیار کرتا ہے بغاوت کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے جبکہ اس کا حق یہ تھا کہ وہ اللہ کے انعامات کو جانتا اور شکر کرتا۔
یہ ایک سرکش انسان کی تصویر کھینچ دی گئی جو اپنی تخلیق کو بھی بھول چکا ہے اور جس کو دوبت مندی نے سخت بگاڑدیا ہے ، تو ایک ملفوف اور بالواسطہ انداز میں اسے دھمکی دی جاتی ہے۔