یعنی یہ سرکش جو تمہیں نماز سے روکتا ہے ، اس کی اطاعت نہ کرو ، یہ جو دعوت اسلامی کی راہ روکتا ہے ، اس کی مزاحمت کرو ، رب کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا قرب حاصل کرو۔ انسان صرف عبادت اور اطاعت کے ذریعہ ہی خدا کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے سرکشوں کو نظر انداز کردو ، اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی قوتیں اس سے نمٹ لیں۔
روایات صحیحہ میں یہ بات مذکور ہے کہ اس سورت کے پہلے پیراگراف کے علاوہ اگلا پورا حصہ ابوجہل کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ یہ جب خانہ کعبہ میں آیا تو حضور مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا اے محمد کیا میں نے تم کو اس سے روکا نہ تھا ، اس نے رسول اللہ ﷺ کو دھمکی دی اور حضور نے بھی اس کو خوب ڈانٹا۔ اور شاید اس موقعہ پر حضور ﷺ نے اس کو گلے سے پکڑ کر کہا۔
اولی لک فاولی (باز آجاﺅ ورنہ ....) اور اس نے کہا ، اے محمد تم مجھے کس چیز کی دھمکی دیتے ہو ، خدا کی قسم اس وادی میں میرے دوست ویار سب سے زیادہ ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
فلیدع نادیہ (17:96) ” یہ اپنے یارومددگار بلائے “۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اگر اس وقت یہ اپنے حامیوں کو بلاتا تو عذاب کے فرشتے اسی وقت ان کو دبوچ لیتے۔
لیکن اس سورت کا مفہوم عام ہے۔ ہر مومن اور مطیع فرمان داعی الی اللہ اور ان کے مقابل آنے والے سرکش اور نافرمان پر یہ سورت صادق آتی ہے۔ ہر وہ باغی جو لوگوں کو نماز سے روکتا ہے اور اللہ کی اطاعت شعاری سے منع کرتا ہے اور نیکی کے خلاف سازشیں کرتا ہے ، اس کے لئے یہ دھمکی تیار ہے۔ آخری ہدایت یہ ہے۔
کلا لا ........................ واقترب (19:96) ” ہرگز نہیں اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو ، اور اللہ کا قرب حاصل کرو “۔ اس تفسیر کے مطابق سورت کے تمام پیراگراف باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔