آیت 31{ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ } ”وہ داخل کرے گا اپنی رحمت میں جس کو چاہے گا۔“ ظاہر ہے دنیا و آخرت کا کوئی کام بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ہم اللہ کے حکم اور اذن کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی شخص ایک کام کرنے پر بظاہر قادر بھی ہو تو وہ اس کام کو اس وقت تک انجام نہیں دے سکتا جب تک اس کی مشیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی شامل نہ ہو۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم خود اللہ کی مخلوق ہیں اسی طرح ہمارے تمام اعمال بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ سورة الصَّافّات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۔ } کہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی۔ اس مفہوم میں ہر انسان اپنی نیت اور اپنے ارادے کی بنا پر ”کا سب ِاعمال“ ہے ‘ جبکہ ”خالق اعمال“ اللہ تعالیٰ ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اسے ایسے اعمال کی توفیق دے گا جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ داخل کرے گا اپنی رحمت میں ‘ اسے جو چاہے گا۔ یعنی وہ صرف اسی شخص کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے گا جو اس کی رحمت کا مستحق بننے کے لیے کوشاں ہوگا۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے : { وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا۔ } یعنی جس شخص نے آخرت کو اپنا اصل مقصود بنا لیا اور اس کے لیے اس نے مقدور بھر محنت بھی کی اور وہ مومن بھی ہو ‘ تو اس کی وہ محنت اور کوشش اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول و مشکور ہوگی۔{ وَالظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۔ } ”اور رہے ظالم ‘ تو ان کے لیے اس نے بہت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ اَللّٰھُمَّ اَعِذْنَا مِنْ ذٰلِکَ ! اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنْ ذٰلِکَ !