آیت 2 { اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ } ”ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے“ موجودہ دور میں سائنس نے اس آیت کا مفہوم بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ مرد کی طرف سے spermatozoon اور ماں کی طرف سے ovum ملتے ہیں تو zygote وجود میں آتا ہے۔ لیکنظاہر ہے پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کا ایک بدو تو لفظ ”اَمْشَاج“ کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق ہی سمجھا ہوگا۔ گویا قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم ہر زمانے کے ہر قسم کے انسانوں کے لیے قابل فہم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معانی و مطالب میں نئی نئی جہتیں بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ { نَّـبْـتَلِیْہِ } ”ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے“ یعنی رحم مادر میں ہم نے اس ”نُطْفَۃٍ اَمْشَاج“ کو مختلف مراحل سے گزارا۔ نطفہ سے اسے علقہ بنایا۔ علقہ کو مغضہ کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر اس کے اعضاء درست کیے۔ ”نَـبْـتَلِیْہِ“ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے ”تاکہ ہم اس کو آزمائیں“۔ یعنی ہم نے انسان کو امتحان اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ { فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا۔ } ”پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا ‘ دیکھنے والا۔“