یہ استفہام تقریری ہے ، یعنی کسی چیز کے بارے میں دریافت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی اطلاع دینا مقصود ہے کہ ایسا ضرور تھا۔ لیکن سوالیہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا کہ انسان کو خود اس حقیقت کے بارے میں سوال کرنا چاہئے ، اور سوچنا چاہئے کہ وہ کسی وقت کوئی قابل ذکر شے نہ تھا اور جب وہ اب ایک قابل ذکر شے ہے تو اسے دست قدرت کا کسی قدر تو شعور ہونا چاہئے جو اسے عدم سے وجود میں لائی اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لائی۔ جہاں یہ اس دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کررہا ہے۔
بہرحال استفہامیہ اور سوالیہ انداز میں ، اس مقام پر چند حقائق کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ نہایت ہی اونچے درجے کے اشارات ہیں۔ گہرے حقائق ہیں اور ان کو پیش نظر رکھ کر قابل غور نکات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا اپنے وجود میں آنے سے قبل اور آغاز وجود کے زمانے اور حالات پر غور کرو ، کہ یہ دنیا ایسی ہی تھی اور اس پر انسان آباد نہ تھا۔ ذرا غور کرو کہ اس وقت یہ دنیا کیسی لگ رہی ہوگی ؟ انسان اللہ کی ایک مخلوق ہے ، لیکن اپنے آپ کو ایک بڑی چیز سمجھتا ہے اور مغرور ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتا کہ یہ دنیا اس کے وجود میں آنے سے بھی پہلے زمانوں سے ایسی ہی تھی۔ بلکہ اس کائنات کی مخلوق انسان کی تخلیق کی توقع ہی نہ رکھتی تھی۔ لیکن اللہ کا ارادہ ہو اور اس نے انسان کی تخلیق فرمائی۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا ان لمحات پر غور کرو جن میں یہ مخلوق انسانی وجود میں آئی۔ ان لمحات کے بارے میں انسان تو ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے جبکہ تخلیق انسان کے آغاز کا علم تو خالق کائنات ہی کو ہوسکتا ہے۔ یہ تو خالق ہی جانتا ہے کہ اس کائنات اور دنیا میں حضرت انسان کا اضافہ کس طرح ہوا۔ اس کائنات کی طویل تایرخ میں اللہ ہی نے انسان کے لئے مخصوص کردار متعین کیا ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے اس ذات انسان کو ، کائنات کے اس اسٹیج پر ، دست قدرت نے کس طرح لاکر کھڑا کیا اور ایک ذمہ داری اور ایک کردار اس کے سپرد کیا ؟ اس کے لئے اسے تیار کیا۔ اس کے کردار کا تانا بانا اس پوری کائنات کے خطوط کے ساتھ ملایا۔ اور وہ حالات اس کے لئے مہیا کیے جن کے اندر اس کے لئے وہ کردار ادا کرنا ممکن اور آسان ہو۔ جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد قدم قدم پر اس کے لئے سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ حضرت انسان اس کائنات کی ہر چیز کے ساتھ وابستہ وپیوستہ ہوگیا۔
بہت سے اشارات ہیں اور بہت سے قابل غور نکات ہیں جو یہ آیات قلب انسانی کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ جن سے انسانی سوچ اور انسانی فکر ، انسان کے مقصد وجود ، اس کے ارادوں اور آغاز سے انجام تک ہر مرحلے پر اس کے نظام تقدیر کے نکات اخذ کرتی ہے۔
یہ تو تھے نکات انسان کے آغاز تخلیق کے متعلق۔ رہا وہ نظام جو نسل انسانی کے بقائے دوام کے لئے اور تاقیامت تسلسل کے لئے وضع کیا گیا تو وہ نظام بالکل مختلف ہے اور اس کا ایک اپنا قصہ ہے۔