یہ آخری مقطع ہے جو نہایت اثر آفرین ہے اور اس میں گہرے حقائق کی طرف اشارہ ہیں۔ ان حقائق کے بارے میں اس وقت کے سامعین نے کبھی غور ہی نہ کیا تھا۔ ان حقائق میں سے زیادہ انسان کی تخلیق اور اس دنیا میں اس کی حیات کے نشوونما کے لئے تدابیر کی طرف اشارات ہیں۔
ایحسب ........................ سدی (36:75) ” کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اسے یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ؟ “ اہل عرب کے نزدیک زندگی ایک ایسی حرکت تھی جس کا نہ کوئی سبب تھا اور نہ کوئی علت تھی۔ نہ کوئی مقصد اور نہ غایت تھی۔ لوگ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے تھے اور قبروں میں جاتے تھے۔ اور پیدائش اور موت کے درمیان کا عرصہ لہو ولعب کے لئے مخصوص تھا۔ زندگی زینت اور زیبائش اور باہم فخر ومباہات سے عبارت تھی۔ لوگ زندگی اسی طرح گزارتے تھے جس طرح حیوانات گزارتے ہیں یہ کہ اس کائنات میں کوئی ناموس فطرت ہے اور زندگی کا کوئی مقصد ہے اور وہ ایک حکمت کے تحت وجود میں لائی گئی ہے۔ یہ باتیں ان کی سمجھ سے دور تھیں۔ وہ یہ نہ سمجھتے تھے کہ انسان ایک متعین تقدیر کے مطابق پیدا کیا گیا ہے اور یہ کہ وہ کوئی ذمہ دار مخلوق ہے اور اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی جزاء وسزا کا نظام بھی موجود ہے۔ اور زندگی کا یہ سفر ایک آزمائش ہے۔ رہا یہ تصور کہ یہ زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور اس کی پشت پر ایک قادر مطلق ذات ہے جو الٰہ العالمین ہے ، اور اس نے ہر چیز کو ایک اندازے اور ایک حکمت کے مطابق پیدا کیا ہے اور ہر چیز ایک انجام کو پہنچنے والی ہے تو یہ تصورات ان کی سوچ میں نہ تھے ، بلکہ یہ لوگ ان تصورات سے کوسوں دور تھے۔ اسلام سے قبل کے زمانے میں عربوں کی ایسی ہی حالت تھی۔
حالانکہ انسان اور حیوان کے درمیان فرق ہی اس شعور کی وجہ سے ہے کہ واقعات ایک مقصد کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں ، ان کے اہداف اور مقاصد متعین ہیں۔ جس طرح یہ پوری کائنات بامقصد ہے اسی طرح اس کے اندر حضرت انسان بھی بامقصد ہے۔ جوں جوں انسان کا یہ شعور ترقی کرتا رہا ہے ، انسانیت نے ترقی کی ہے ، اس شعور کے تحت انسان کی زندگی باہم مربوط ہوتی ہے۔ اس تصور کے تحت انسان اپنی زندگی کے لمحات کا حساب کرتا ہے۔ تمام حادثات وواقعات پر غور کرتا ہے۔ حال اور مستقبل کو ماضی سے مربوط رکھتا ہے۔ پھر اس پوری زندگی کو اس کائنات کے نظام کے ساتھ مربوط رکھتا ہے۔ اور پھر انسان اور پوری کائنات کو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ جوڑتا ہے کہ یہ انسان اور اس کی زندگی اور یہ جہاں عبث نہیں پیدا کیے گئے۔
یہ ہے وہ عظیم تصورحیات جس کی طرف قرآن نے لوگوں کو پہنچایا۔ یہ ایک عظیم انقلاب تصور تھا۔ اس وقت انساوں کے اندر جو سوچ بالعموم موجود تھی اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں یہ بہت ہی انقلابی سوچ تھی۔ نیز اس وقت دنیا میں جو فلسفے اور خیالات رائج اور مشاہد تھے ان کے مقابلے میں یہ تصور اور عقیدہ ایک انقلابی تصور اور سوچ تھی۔ (دیکھئے میری کتاب اسلام کائنات اور زندگی اور انسان) ۔
یہ چٹکی کہ۔
ایحسب ................ سدی (36:75) ” کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھو ڑدیا جائے گا ؟ “۔ یہ دراصل ان چند قرآنی اشارات میں سے ہے جو انسان کو اس کائنات کے ساتھ روابط اور تعلقات قائم کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس جہاں اور انسان دونوں کے لئے غرض وغایت اور ایک مقصد متعین کرتے ہیں۔ واقعات کے لئے علل واسباب متعین کرتے ہیں اور کچھ چیزوں کو کچھ کے نتائج قرار دیتے ہیں۔ یوں یہ پوری کائنات اور اس کے اندر انسان بامقصد اور باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔
یہاں اس تصور پر نہایت ہی سادہ اور سیدھے دلائل لائے جاتے ہیں ، جن کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان شتر بےمہار اور بےمقصد نہیں ہے۔