یہ ایک عام اصطلاحی انداز تعبیر ہے ، عربی روز مرہ کے مطابق ، مگر اس کے اندر تہدید اور ڈوراوا بھی ہوتا ہے۔ ایک بار حضور اکرم ﷺ نے ابوجہل کو گلے سے پکڑا اور کہا :
اولی لک ................ فاولی (57 : 53) تو اللہ کے اس دشمن نے کہا : ” محمد کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو ؟ خدا کی قسم نہ تم اور نہ تمہارا رب میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو اور میں ان تمام لوگوں سے زیادہ معزز ہوں جو مکہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کبھی چلے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن اسے پکڑا اور یوں حضرت محمد ﷺ اور رب محمد ﷺ نے اس کا سب کھیل بگاڑ دیا۔ اور ابوجہل سے قبل فرعون نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا۔
ماعلمت .................... غیری ” میں تمہارے لئے اپنے مقابلے میں کوئی دوسرا حاکم نہیں پاتا “۔ اور کہا۔
الیس .................... من تحتی ” کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے ماتحت نہیں چل رہی ہیں “۔ کئی ابوجہل گزرے ہیں جنہوں نے اسلامی دعوتوں کے مقابلے میں اپنے قبائل ، اپنی قوت اور اپنی قوم کے بل بوتے پر جرائم کا ارتکاب کیا اور اپنے آپ کو کچھ چیز سمجھتے تھے ، اور انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تھا لیکن اللہ نے ان کو مچھروں اور مکھیوں کے ذریعہ ہلاک اور برباد کردیا۔ بہرحال ہر فرعون کی تباہی کی ایک میعاد ہوتی ہے جس میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔
آخر میں لوگوں کی زندگی سے ایک اور اہم حقیقت کو سامنے لایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی حیات بعد موت پر دلالت کرتی ہے۔ جس کا وہ شدت سے انکار کرتے تھے۔ اور اس سے خود ان کی اس زندگی کی نشوونما کی تدبیر اور تقدیر اور تعجب خیز اور عبرت آموز ٹیکنالوجی بھی معلوم ہوتی ہے جو خدا کی پیدا کردہ ہے اور یہ تقاضا کرتی ہے کہ قیامت ضرور واقع ہوگی اور خود مطالعہ حیات وقوع حشرونشر کو لابدی قرار دیتا ہے بشرطیکہ کوئی اسے چشم بینا سے مطالعہ کرے۔