You are reading a tafsir for the group of verses 75:22 to 75:23
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب قرآن کریم کا پیش کردہ مصور منظر جو قرآن کا منفرد اسلوب ہے۔

وجوہ ........................ ناضرة (22) الی ربھا ناظرة (75:23) ” اس روز کچھ چہرے تروہ تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “ یہ آیت ایک ایسی حالت کی طرف ایک جھلک کی شکل میں تیز اشارہ کررہی ہے کہ الفاظ کے اندر کسی انسان کے لئے ایسا اشارہ ممکن نہیں ہے۔ نہ انسان اس حالت کا حقیقی ادراک ہی کرسکتا ہے۔ کامیاب اور نیک بخت لوگوں کی حالت کی یہ ایسی تصویر ہے جس کی حالاتی تصویر کشی ممکن ہی نہیں ہے بلکہ اس حالت کے مقابلے میں جنت کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہی۔ حالانکہ وہ نعمتوں کے انواع و اقسام سے بھری ہوئی ہے۔ یہ حالت کہ یہ چہرے تروتازہ ہوں گے ، اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ رب کی طرف دیکھ رہے ہوں اور خوش اور مطمئن ہوں۔ یہ ہے بلند ترین مقام سعادت مندی !

اس جہاں میں انسان بعض اوقات اس کائنات اور نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے حسن و جمال سے بےحد لط اندوز ہوتا ہے۔ انسان مثلاً چاندنی رات میں گم ہوتا ہے۔ اگر چاندنی نہ ہو تو اندھیری رات کا بھی ایک لطف ہوتا ہے۔ پھر نمودسپیدہ صبح کیا خوبصورتی دکھاتا ہے۔ درختوں کے طویل اور گہرے سائے ، سمندر کی پے درپے موجیں ، صحراﺅں کی درویاں ، باغات کی سرسبزیاں ، خوبصورت پھل اور پھول فرحاں و شاداں دل ، پختہ ایمانی لمحات ، مشکلات کو انگیز کرنا اور دوسری خوبصورتیاں جن سے یہ جہاں پر ہے اور انسان ان سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے اور تصور اور نور کے پروں کے ساتھ اس جہاں میں دوڑتا اور اڑتا پھرتا ہے۔ اور اس قدر خوشی اور سرور پاتا ہے کہ زندگی کے درد اور دکھ بھول جاتا ہے اور مادی اور جسمانی خوشیوں کو بھول جاتا ہے۔ خواہشات نفس اور مادی شوق اور لذت ایک لمحے کے لئے ذہن سے دور ہوجاتے ہیں۔

لیکن اس کی خوشیوں کا عالم ہی کیا ہوگا جب وہ اللہ کے تخلیق کردہ کمال و جمال کے بھی آگے بڑھ کر ذات باری کے کمالات کو دیکھ رہا ہو اور اللہ کی طرف اس کی نظریں ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ مقام تب حاصل ہوتا ہے جب اللہ کی خاص مدد شامل حال ہو ، پھر یہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب کسی کو اللہ کی جانب سے ثابت قدمی حاصل ہو۔ انسانوں کو اپنے اوپر کنٹرول حاصل ہو ، وہ استقامت کا مالک ہو اور اخروی سعادت مندی سے لطف اندوز ہورہا ہو ، وہ سعادت مندی جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ اور جس کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنا ہی مشکل ہے۔

وجوہ ............ ناضرة (22) الی ربھا ناظرة (75:23) ” بعض چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔ وہ تروتازہ کیوں نہ ہوں جبکہ وہ رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

انسان اس دنیا میں اللہ کی تخلیقات کا نظارہ کرتا ہے ، خوبصورت پھل ، عجیب و غریب پھول ، خوش رنگ اور خوبصورت پرندے اور ان کے بال ویر ، خوبصورت روحیں اور اچھے کام اور ان چیزوں کو دیکھ کر اس کارواں رواں خوش ہوتا ہے۔ اور اس کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی ہوتی ہے اور چہرہ ترو تازہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر انسان اللہ کے مال اور جمال اور نورذات کی طرف دیکھ رہا ہو تو اس کی خوشی اور خوش بختی کے کیا کہنے۔ انسان اس مقام تک تب ہی پہنچ سکتا ہے جب وہ ان تمام رکاوٹوں کو ایک جھٹکے کے ساتھ دور پھینک دے جو اس مقام بلند تک پہنچنے سے روک رہی ہوتی ہیں۔ یہ مقام تب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول سے تمام نقائص دور کردے۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی چیز کی طرف دیکھ ہی نہ رہا ہو۔

انسان اللہ کی طرف کس طرح دیکھے گا ؟ کس عضو سے دیکھے گا ؟ کیا آلہ بینائی اسے حاصل ہوگا ؟ کیا ذریعہ ہوگا اللہ کے دیکھنے کا ؟ تو یہ وہ بات ہے جو ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ یہ ایک تصور ہے جو قلب مومن کو دیا جارہا ہے۔ ایک فیض ہے جس سے روح مومن فیض یاب ہوگی۔ یہ دنیا کی آلودگیوں سے پاک اور شفاف فیض سعادت ہے ، جو مومن کو حاصل ہوگا۔

رہے عقلیت پسند تو وہ اس سے خوشی اور سرور حاصل کرنے کے بجائے ایسی آیات مجادلہ شروع کردیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ، جس طرح وہ خوشی اور اطمینان سے محروم ہوتے ہیں۔ اسی طرح فہم وادراک سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اس جہاں کی باتیں دنیا کی مالوف عقل سے نہیں ، ایمان کی قوت مدرکہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔

انسانی شخصیت کا ارتقاء اور اس کو محدود زمینی شخصیت سے علیحدہ اور بلند کرنا ہی اسے قیامت کے روز لامحدود شخصیت اور ذات برتر وبالا سے ملاسکتا ہے۔ اس کے بغیر انسان کے لئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ لامحدود کے ساتھ کیسے مل سکتا ہے۔ لہٰذا معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان رویت باری کے بارے میں جو طویل بحثیں چلیں وہ بالکل لا حاصل تھیں ، کیونکہ انسان کی اس زمینی شخصیت اور اخروی شخصیت کے درمیان فرق ہوگا۔

کلمات الٰہیہ کا ہم وہی مفہوم سمجھ سکتے ہیں جو ہماری محدودذات کے اندر سماتا ہے ، جب ہماری شخصیت ہی بدل جائے اور ان محدود تصورات سے بالا ہوجائے تو پھر ان کلمات کا مزاج اور مفہوم ہی بدل جائے گا۔ کلمات تو دراصل رمز ہوتے ہیں ان مفہومات کے لئے جو انسانی تصور میں ہوتے ہیں۔ جب انسانی تصورت کے حدود وقیود بدل جائیں تو کلمات کے کے مفہوم بھی بدل جائیں گے۔ جب انسانی شخصیت بدل گئی ، اس کی قوت مدرکہ کی طاقت بدل گئی تو اس کے ساتھ ساتھ کلمات اور تصورات دونوں بدل جائیں گے۔ اس دنیا میں ان کلمات کا ہم وہ مفہوم سمجھتے ہیں جو ہمارے حال ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے مفاہیم میں نہیں الجھنا چاہئے جو ہم ان کلمات سے اخذ نہیں کرسکتے۔

بس ہمیں اس سعادت مندی اور اس مقدس خوشی اور سرور کی امید رکھنا چاہئے جس کا ہم اس دنیا کے مفاہیم کے اعتبار سے تصور کرسکتے ہیں۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس قسم کے فیوض کے لئے اپنی نظریں عالم بالا کی طرف بلند رکھیں۔ اور اس سے بڑا سرور اور کوئی نہیں۔