undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ومایذکرون .................... المغفرة

اس کائنات میں جو چیز بھی واقع ہوتی ہے اللہ کے عظیم تر نظام مشیت میں بندھی ہوتی ہے۔ اللہ کے ارادے اور مشیت ہی کے رخ پر اور اس کے وسیع دائرے کے اندر واقعات چلتے ہیں۔ لہٰذا کسی انسان سے کوئی فعل اللہ کی مشیت کے بغیر سر زد نہیں ہوسکتا۔ زمین کی تمام قدروں کی مشیت الٰہیہ اپنے دائرے کے اندر لیے ہوئے ہوتی ہے۔ کیونکہ تمام قدریں اللہ کی مشیت کی پیدا کردہ ہیں اور انسان اور نوامیس فطرت اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اس کائنات میں جو واقعات چلتے ہیں وہ مشیت الٰہیہ کی ریل کے اندر ہی چلتے ہیں جس پر کوئی حد اور قید نہیں ہے۔ اس ریل کے اندر ہر انسان آزاد بھی ہے اور بند بھی۔

تذکر اور نصیحت آموزی تو اللہ کی توفیق کے مطابق ہوتی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کون اس کا مستحق ہے۔ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔ اگر اللہ جان لے کہ یہ شخص اچھی نیت کا مالک ہے تو اللہ اسے اچھائی کی طرف پھیر دیتا ہے۔

لیکن انسان کو کوئی پتہ نہیں ہے کہ اللہ کیا چاہتا ہے ؟ اللہ کی چاہت تو پردہ غیب میں ہے۔ البتہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اللہ کی رضا کیا ہے ؟ کس میں ہے ؟ اور یہ بات اللہ نے قرآن میں بتادی ہے کہ اللہ کی رضا کس میں ہے ؟ جب انسان اللہ کی مرضی کے راستے کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اسے مزید آگے بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ ایک مومن کے احساس کے اندر جس چیز کو اچھی طرح بٹھانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت بےقید ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی مشیت اسے گھیرے ہوئے ہے ، تاکہ ایک مخلص بندے کی تمام تر توجہ اللہ کی ذات پر مرکوز رہے۔ اور ایک مسلم پوری طرح اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھے۔ یہ ہے وہ بنیادی حقیقت جسے ذہن نشین کئے بغیر اسلام کسی انسانکے دل میں جاگزیں نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ کیفیت ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے اور انسانی قلب ونظر اس میں سرشار ہوجائیں اور انسان زندگی کے تمام واقعات اور حادثات کی تعبیر اس تصور کے مطابق کرنے لگے تو وہ صحیح طرح مسلم ہوتا ہے۔ یہی مقصد ہے اللہ کی مشیت کے بےقید ہونے کا اور اللہ کی مشیت کا یہ اطلاق قرآن میں ہر فیصلے کے ساتھ لایا جاتا ہے۔ چاہے جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہو ، چاہے کسی شخص کی ہدایت وضلالت کا فیصلہ ہو۔

رہا وہ تاریخی اور کلامی مجادلہ و مباحثہ جو انسان کے جبرواختیار کے بارے میں چلا ، تو وہ پوری حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا ، وہ دراضل کلی حقیقت کے ایک جزء کو لیتا ہے اور اس کیو جہ سے فکر انسانی کسی تشقی بخش قول تک کبھی نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ یہ مباحثہ ومجادلہ قرآن کے صحیح اور سادہ راہوں سے ہٹ کر نہایت ہی پیچیدہ راہوں پر جانکلا اور جس قدر یہ مباحثہ آگے بڑھا ، فکر انسانی کی تگ وتازی کی راہیں تنگ ہوتی رہیں۔

وما یذکرون ................ اللہ (74:56) ” اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے۔ الایہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے “۔ کیونکہ وہ اللہ کی مشیت کے نظام سے متصادم نہیں ہوسکتے۔ اور نہ وہ کسی حیثیت میں کوئی مخالفانہ حرکت کرتے ہیں۔ انسان کی حرکت اور انسان کا ارادہ بھی وسیع تر دائرہ مشیت کے اندر ہی ہوتا ہے۔

ھواھل التقوی (56:74) ” وہ اس کا حقدار ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے “۔ اللہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے بندے اس سے ڈریں ، اس لئے ان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں۔

واھل المغفرة (74:56) ” اور وہ اس بات کا اہل ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بخش دے “۔

اور یہ کرم وہ جن بندوں پر چاہتا ہے کرتا ہے اور اللہ کا کرم اس کے نظام مشیت کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی انسان کو مغفرت کا اہل بناتا ہے۔ اور اللہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

ھواھل ........................ المغفرة (74:56) ” وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے اور وہ اس کا اہل ہے تقویٰ کرنے والوں کو بخش دے “۔

٭٭٭٭٭

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%