فمالھم ............................ قسورة
جنگلی گدھے بہت ہی ڈرپوک ہوتے ہیں ، جب یہ شیر کی دھاڑ کی آواز سنتے ہیں تو یہ جدھر منہ ہوتا ہے ادھر بھاگ جاتے ہیں۔ عرب اس قسم کے مناظر سے واقف تھے۔ جب انسانوں کو ان خوفزدہ گدھوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ تو یہ منظر نہایت ہی مضحکہ خیزہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تذکرہ اور نصیحت سے ان کی نفرت اور فرار نہیں انسانوں کی بجائے گدھے بنا دیتا ہے۔ سا لئے نہیں کہ انہیں کوئی خوف درپیش ہے بلکہ اس لئے کہ ایک یاددہانی کرانے والا ان کو اپنے رب کی طرف بلارہا ہے اور انہیں یہ موقعہ فراہم کررہا ہے کہ یہ لوگ اس خوفناک انجام سے دو چار ہونے سے بچ جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دست قدر کی محیر العقول عکاسی ہے جس نے اس تشبیہ کو یوں ریکارڈ کیا تاکہ قیامت تک لوگ اسے پڑھتے رہیں اور ان لوگوں کا رویہ قابل نفرت نظر آتا رہے اور لوگ ایسے روئیے سے بچتے رہیں اور جن لوگوں نے یہ رویہ اختیار کیا وہ شرمساری سے منہ چھپاتے پھریں۔
یہ تو تھی ان لوگوں کی بیرونی تصویر کہ ” وہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر کے ڈر سے بھاگ پڑے ہیں “۔ لیکن ان کی داخلی نفسیاتی تصور کیا ہے اور ان کا شعوری خلجان کیا ہے۔
0%