وکنا ........................ الدین (74:46) ” اور روز جزاء کو جھوٹ قرار دیتے تھے “۔ یہ ہے اس مصیبت کی اصل بنیاد ، جو شخص قیام قیامت کا منکر ہوتا ہے اس کی زندگی کی تمام قدریں اور پیمانے خلل پذیر ہوجاتے ہیں اور اس کی تمام اقدار مضطرب ہوتی ہیں۔ اس کے احساسات میں زندگی کا دائرہ بہت ہی محدود اور تنگ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کی پوری سوچ اس زمین کی مختصر عمر تک محدود ہوجاتی ہے اور وہ انہی نتائج کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ جو اس مختصر زندگی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ان نتائج پر کبھی مطمئن نہیں ہوتا اور آخرت کا کوئی حساب و کتاب اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تمام معیارات اور تمام قیاسات فساد پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے دنیاوی امور میں بھی فساد برپا ہوتا ہے اور اس کے تمام امور شریر منتج ہوتے ہیں۔
مجرم یہ کہتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے احوال کچھ یوں تھے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے ، مساکین کو کھانا نہ کھلاتے تھے اور محض گپ شپ اور غیر سنجیدہ گفتگو میں لگے رہتے تھے اور قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔