آیت 34{ وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } ”اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہوجائے۔“ یہاں چاند کی قسم اور پھر رخصت ہوتی ہوئی رات اور روشن صبح کے ذکر کے پردے میں بہت اہم مضمون بیان ہوا ہے۔ رات کی قسم میں فترتِ وحی کے طویل دور کی طرف اشارہ ہے ‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبوت محمدی ﷺ کے ظہور تک چھ سو برس پر محیط وہ عرصہ جس میں وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ اس دوران دنیا میں بلاشبہ جہالت کی تاریکی کا راج تھا۔ سابقہ نبوتوں کی تعلیمات زیادہ تر مسخ ہوچکی تھیں اور مجموعی طور پر دنیا کے اندر ہدایت ِآسمانی کی روشنی بہت مدھم پڑچکی تھی۔ چاند کی قسم اسی مدھم اور مستعار روشنی کا اشارہ دے رہی ہے ‘ جبکہ صبح کی روشنی نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺ کا استعارہ ہے۔ گویا علامات کے پردے میں ان تین آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ پچھلے چھ سو برس سے دنیا پر جہالت و ضلالت کی تاریک رات مسلط تھی ‘ ہدایت ِخداوندی کی روشنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی ‘ مگر اب رسالت ِمحمدی ﷺ کا خورشید طلوع ہونے سے تاریکی کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ان تین قسموں کا حوالہ سورة الانشقاق پارہ تیس کی آیات 16 تا 19 کے مطالعہ کے دوران دوبارہ آئے گا۔