undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ یہ فرشتے انیس ہیں اور مشرکین اس تعداد میں شک کرتے ہیں۔

وما جعلنا ............................ ملئکة (74:31) ” ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں “۔ تو یہ کارکن ان فرشتوں میں سے ہیں جو نہایت ہی قدرت والے ہیں اور ان کی طبیعت اور مزاج کو اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ نہایت ہی قوی ہیں اور ان کے بارے اللہ نے فرمایا ہے۔

لا یعصون .................... یومرون ” وہ ان احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور ان کو جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں “۔ یعنی وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور ان کے اندر اس بات کی طاقت ہے کہ اللہ جو حکم دے وہ اس کی تعمیل کریں ۔ اللہ نے ان کو ایسی قوت دے رکھی ہے کہ وہ ان کو جو حکم دے ، اس کی تعمیل وہ فوراً کردیں۔ اگر اللہ نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آگ کے اندر اللہ کے احکام کی تعمیل کریں تو اللہ نے ان کو قدرت دی ہے کہ وہ ایسے حالات میں کام کرسکیں۔ جس طرح اللہ نے ان کو سکھایا۔ لہٰذا ان فرشتوں کے ساتھ یہ بیچارے کب پنجہ آزمائی کرسکتے ہیں ، ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ ان فرشتوں کو وہ قابو کرلیں گے تو یہ محض جہالت کی وجہ سے کہا ، ان لوگوں کو دراصل اللہ کی قوتوں اور اللہ کی فوجوں کی طات کا کوئی پتہ ہی نہیں۔ اور یہ معلوم ہی نہیں کہ اپنے معاملات کو کس طرح چلاتا ہے۔

وما جعلنا ................ کفروا (74:31) ” اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کے لئے فتنہ بنادیا ہے “۔ یہ کافر دراصل ان فرشتوں کی تعداد پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ مقامات کیا ہیں جہاں تسلیم کے بغیر بات نہیں بنتی اور وہ مقامات کیا ہیں جہاں جدل وجدال اور بحث ومباحثے کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ معاملہ غسیلت کا ہے۔ اور اس میں تسلیم ورضا کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان غیبی شعبوں اور موضوعات پر انسان کے پاس نہ قلیل علم ہے اور نہ کثیر علم ہے۔ جب الہل نے اپنے نبی کے ذریعہ یہ اطلاع کردی اور نبی سچا ہے اور اللہ سچا ہے تو پھر بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انسان کا مقام یہ ہے کہ بس نبی کی بات تسلیم کرے اور یہ اطمینان رکھے کہ جس قدر خبر اللہ نے بتا دی اسی قدر بتانے میں خیر ہے اور اس میں مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسان مناقشہ اس موضوع پر کرسکتا ہے جس کے بارے میں اس کے پاس کوئی سابقہ علم ہو اور جدید علم کے بارے میں وہ اعتراض کرتا ہو۔ تو فرشتوں کی تعداد کے بارے میں انسان کے پاس سرے سے کوئی سابقہ علم ہی نہیں ہے اور یہ کہ ” وہ “ انیس ہیں تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کیا ہیں اور انیس کیوں ہیں ؟ تو اعتراض کرنے والے بیس پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں۔ آخر آسمان سات کیوں بنائے ہیں ، اس پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے اور انسان کو موجودہ شکل میں کیوں بنایا اور سوکھی مٹی سے کیوں بنایا اور جنوں کو آگ کے شعلہ سے کیوں بنایا ؟ اور انسان کیوں ماں کے پیٹ میں 9 ماہ رہتا ہے اور کچھوے کیوں ہزار ہا سال زندہ رہتے ہیں اور یہ کیوں ؟ اور یہ کیوں ؟ جواب صرف یہی ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہے اور یہی حقیقی جواب ہے ایسے معاملات کا۔

لیستیقن ............................ والمومنون (74:31) ” تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے ، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں “۔ اور یہ دونوں فریق دوزخ کے نگرانوں کی تعداد میں یقین کا مواد پائیں گے اور اہل ایمان کا تو ایمان زیادہ ہوگا۔ رہے اہل کتاب ، تو ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی علم ضرور ہوگا۔ اور جب وہ سنیں گے کہ قرآن کریم بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے تو وہ بات درست ہے کیونکہ قرآن کریم کتب سابقہ کی تصدیق کرنے والا ہے۔ رہے اہل ایمان ، تو ان کا ایمان تو ہر نئی آیت کے بعد زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے دل کھلے ہیں اور عالم بالا سے ان کا بذریعہ رسول ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔ اور جو حقائق بھی وارد ہوتے ان کے ایمان میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ ان کے دلوں میں عنقریب یہ حکمت بیٹھ جائے گی کہ کیوں اللہ نے انیس فرشتے مقرر کیے ہیں ، کیونکہ اللہ کے نظام تخلیق وتدبیر میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور ان دونوں کے ذہن میں جب یہ حقیقت بیٹھ جائے گی تو یہ دونوں فریق شک نہ کریں گے کیونکہ یہ بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔

ولیقول ............ مثلا (74:31) ” اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے “۔ یوں اس ایک ہی حقیقت کا اثر مختلف دلوں میں مختلف ہوتا ہے ، جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ یقین کرتے ہیں اور جو مومن ہیں ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور جن لوگوں کے دل میں بیماری ہے اور جو ضعیف الایمان اور منافق ہیں وہ حسرت واستعجاب میں پوچھتے ہیں :

ماذارا ............ مثلا (74:31) ” اللہ کا اس بات سے مطلب کیا ہے ؟ “۔ کیونکہ اس تعداد کی حکمت وہ نہیں سمجھتے۔ اور نہ وہ اصولاً اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خالق کائنات کی تمام باتوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ وہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کی خبروں کی تصدیق پیش کرتے ہیں اور نہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں خیر اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔

کذلک .................... من یساء (74:31) ” اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخش دیتا ہے “۔” اسی طرح “ یعنی حقائق کے بیان کے ذریعہ اور آیات قرآنیہ کے بیان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مختلف دلوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ ایک گروہ اللہ کی مشیت کے مطابق ان سے ہدایت لیتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے نظام مشیت کے تحت گمراہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر امر کا آخری سبب اللہ کا ارادہ مطلقہ ہوتا ہے۔ ان انسانوں کو قدرت الٰہیہ نے دونوں طرز کی صلاحتیں دی ہیں۔ ان کے اندر ہدایت کی صلاحیت بھی ہے اور گمراہی کی صلاحیت بھی ہے۔ اور یہ صلاحیت اللہ کے نظام مشیت کے اندر ہے۔ پس جو گمراہ ہو ، وہ بھی مشیت کے اندر ہے اور جو ہدایت پائے وہ بھی اس دائرے کے اندر ہے ، کیونکہ ان کی تخلیق کے اندر دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ دونوں راستے ان کے لئے آسان کردیئے گئے ہیں ، جو کوئی جس راستہ کو اختیار کرتا ہے ، اللہ کے دائرہ مشیت کے اندر ہی ہوتا ہے اور یہ دائرہ اللہ کی گہری حکمت پر مبنی ہے۔

یہ تصور کہ اللہ کی مشیت مطلق اور بےقید ہے اور اس کائنات میں جو امر واقع ہوتا ہے وہ اس مشیت کے دائرہ کے اندر ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع تصور ہے اور یہ متکلمین کی ان محدود بحثوں سے وسیع تر ہے جو وہ انسان کی جبریت اور اختیار کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچنا ہی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جبرواختیار کی مباحث نہایت ہی تنگ زاویہ سے کی جاتی ہیں۔

یہ بحثیں انسان کی محدود سوچ ، محدود طرز استدلال کے انداز میں اور انسان کے محدود تصورات کے اندر کی جاتی ہیں جبکہ اللہ کے نظام مشیت کا تعلق اللہ کی غیر محدود الوہیت کے نظام سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت اور ضلالت کا راستہ بتا دیا اور وہ منہاج بھی بتادیا جس پر چل کر ہم سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اور وہ طریقے بھی بتادیئے جن کے ذریعہ انسان گمراہ ہوتے ہیں اور برے انجام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں مکلف نہیں بنایا کہ اس سے زیادہ بھی ہم جان لیں ، نہ اللہ نے اس سے زیادہ ہمیں قدرت اور طاقت دی ہے۔ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ میرا ارادہ بےقید ہے اور میں جو کچھ چاہتا ہوں وہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے فہم اور ادراک کے مطابق اللہ کی بےقید مشیت اور ارادہ مطلق کو سمجھنا چاہئے اور اس کے مطابق چلنا چاہئے۔ ہمیں اس منہاج پر چلنا چاہئے جس کے نتیجے میں ہدایت ملتی ہے اور اس منہاج سے بچنا چاہئے جس سے ہم گمراہ ہوتے ہیں اور ان سائل پر ہمیں فضول اور لاحاصل بحث نہیں کرنا چاہئے جن تک انسانی قوائے مدرکہ کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔ اس اصول کے مطابق متکلمین مسئلہ قدرواختیار کے موضوعات پر جو مباحث کیے ہیں وہ لا حاصل ہیں۔

ہم اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے کہ اللہ کی مشیت ہمارے بارے میں کیا کرتی ہے۔ البتہ ہم اس حقیقت کو پاسکتے ہیں کہ انسان اللہ کے فضل وکرم کے مستحق کس طرح ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی قوتیں ان کاموں میں صرف کریں جن کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اور اللہ کے پوشیدہ اور مشتبہ امور کو اللہ پر چھوڑدیں۔ جب اللہ کی مشیت ظاہر ہوجاتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی مشیت تھی اور ایسا ہوگیا۔ مشیت کے ظہور سے قبل ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہر مشیت کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ حکمت بھی اللہ جانتا ہے ، صرف اللہ وحدہ۔ یہ تو ہے ایک سچے مومن کا طریقہ کار۔

وما یعلم ................ الا ھو (47 : 13) ” اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا “۔ اس لئے اللہ کی افواج ، ان کی حقیقت ان کے وظائف اور ان کی قوت کا ہمیں علم نہیں ہے ، کیونکہ یہ اللہ کے غیبی امور میں سے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ ان امور میں سے کسی چیز کا انکشاف کردے۔ اور اللہ جو بات کردے وہ فیصلہ کن اور اٹل ہوتی ہے۔ اللہ کے قول کے بعد کوئی مجادلہ نہیں کرسکتا ، کسی کو کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ کسی بات کے معلوم کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ کام کوئی کر ہی نہیں سکتا۔

وماھی ................ للبشر (74:31) ” اور اس دوزخ کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لئے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو “۔ ھی کی ضمیر یا تو اللہ کے ” جنود “ کی طرف راجح ہے یا جہنم کی طرف۔ اور اس پر جو فرشتے ہیں ان کی طرف۔ اور یہ بھی اللہ کی افواج میں سے ہیں۔ اور ان کا ذکر لوگوں کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لئے کیا گیا ہے۔ محض جدل وجدال کے لئے نہیں۔ اللہ کے کلام سے صرف اہل ایمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ، رہے گمراہ دل ، تو وہ ان چیزوں کو محض جدل وجدال کا ذریعہ بناتے ہیں۔

اس غیبی حقیقت کی وضاحت اور ہدایت لینے اور گمراہ ہونے کے طریقے اور اسباب بتانے کے بعد اب حقیقت آخرت حقیقت جہنم اور رب تعالیٰ کی خفیہ قوتوں کو اس کائنات کے ظاہری مشاہد اور نشانیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ان ظاہری نشانیوں کو تو انسان دیکھتے ہوئے بھی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ غیبی حقائق معلوم کرنے کے لئے تیر تکے چلاتے ہیں ، حالانکہ ان ظاہری امور اور نشانات سے اللہ کے ارادے اور قوتیں اچھی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور ان ظاہری نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے بڑا مقصد اور ایک طاقتور ارادہ ہے۔