آیت 94 وَلَقَدْ جِءْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ یعنی آج اپنے تمام لاؤ لشکر ‘ مال و متاع اور خدم و حشم سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ آج کوئی بھی ‘ کچھ بھی تمہاری مدد کے لیے تمہارے ساتھ نہیں۔ یہی بات سورة مریم میں اس طرح کہی گئی ہے : وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا کہ قیامت کے دن ہر شخص کا محاسبہ انفرادی حیثیت میں ہوگا۔ اور ظاہر ہے اس کے لیے ہر کوئی اکیلا کھڑا ہوگا ‘ نہ کسی کے رشتہ دار ساتھ ہوں گے ‘ نہ ماں باپ ‘ نہ اولاد ‘ نہ بیوی ‘ نہ بیوی کے ساتھ اس کا شوہر ‘ نہ سازو سامان نہ خدم و حشم !یہاں ایک اور اہم بات نوٹ کیجیے کہ خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ کا مطلب ہے کہ انسان کی تخلیق دو مرتبہ ہوئی ہے۔ ایک تخلیق عالم ارواح میں ہوئی تھی ‘ وہاں بھی سب اکیلے اکیلے تھے ‘ نہ کسی کا باپ ساتھ تھا نہ کسی کی ماں۔ تب ارواح کے مابین کوئی رشتہ داری بھی نہیں تھی۔ یہ رشتہ داریاں تو بعد میں عالم خلق میں آکر ہوئی ہیں۔ آیت زیرنظر میں عالم ارواح کی اسی تخلیق کی طرف اشارہ ہے۔ عالم ارواح کے اس اجتماع میں بنی نوع انسان کے ہر فرد نے وہ عہد کیا تھا جسے عہد الست کہا جاتا ہے۔ جب پروردگار عالم نے اولاد آدم کی ارواح سے سوال کیا : اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا : بَلٰی الاعراف : 172 کیوں نہیں ! عالم ارواح کے اجتماع اور روز محشر کے اجتماع میں ایک لحاظ سے فرق ہے اور ایک لحاظ سے مشابہت۔ فرق یہ ہے کہ پہلے اجتماع میں مجرد ارواح کی شمولیت ہوئی تھی ‘ اس وقت تک انسانوں کو جسم عطا نہیں ہوئے تھے ‘ جب کہ روز محشر کے اجتماع میں یہ دنیاوی اجسام بھی ساتھ ہوں گے۔ ان اجتماعات میں مشابہت یہ ہے کہ پہلے اجتماع میں بھی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ان کی نسل کے آخری انسان تک سب کی ارواح موجود تھیں اور قیامت کے دن بھی یہ سب کے سب انسان اپنے پروردگار کے حضور کھڑے ہوں گے۔وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَآءَ ظُہُوْرِکُمْ ج۔وہ کون سی چیزیں ہیں جن میں یہاں ہمیں لپیٹ دیا گیا ہے ‘ اس پر غور کی ضرورت ہے۔ اصل چیز تو انسان کی روح ہے۔ اس روح کے لیے پہلا غلاف یہ جسم ہے ‘ پھر اس غلاف کے اوپر کپڑوں کا غلاف ہے ‘ کپڑوں کے اوپر پھر مکان کا غلاف اور پھر دیگر اشیائے ضرورت۔ اس طرح روح کے لیے جسم اور جسم کی ضروریات کے لیے تمام مادّی اشیاء یعنی اس دنیا کا سازو سامان سب کچھ اس میں شامل ہے۔ ہماری روح درحقیقت ان مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ قیامت کے دن ارشاد ہوگا کہ آج تم ہمارے پاس اکیلے حاضر ہوئے ہو اور دنیا کی تمام چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰٓوءُ ‘ ا ط ان مجرم لوگوں کو جن جن کے بارے میں بھی زعم تھا کہ وہ ان کے لیے قیامت کے دِن شفاعت کریں گے وہ سب وہاں ان سے اعلان براءت کردیں گے۔ لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور دوسرے معبود ان باطل تو کسی شمار و قطار ہی میں نہیں ہوں گے ‘ اس سلسلے میں انبیاء کرام علیہ السلام ‘ ملائکہ اور اولیاء اللہ سے لگائی گئی ان کی امیدیں بھی اس روز بر نہیں آئیں گی۔لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ آج ان ہستیوں میں سے کوئی تمہارے ساتھ نظر نہیں آ رہا جن کی سفارش کی امید کے سہارے پر تم حرام خوریاں کیا کرتے تھے۔
0%