مشرکین اپنی کج بحثی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتی تھے کہ اللہ نے تو انسانوں میں سے کسی فرد کو رسول بنا کر بھیجا ہی نہیں ہے ۔ نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب بھیجی ہے جو اللہ کی وحی پر مبنی ہو حالانکہ مشرکین کے پڑوس ہی میں یہودی اہل کتاب رہتے تھے اور ان مشرکین کے کبھی اس امر کا انکار نہ کیا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں ۔ نہ انہوں نے اس بات کا انکار کیا تھا کہ تورات اللہ کی جانب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اتری ۔ یہ بات وہ عناد اور محض کٹ حجتی کی خاطر کرتے تھے ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اس بہانے وہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا انکار کرسکیں ۔ اسی لئے قرآن مجید یہاں ان پر تنقید کرتا ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ اللہ نے کوئی کتاب کسی انسان پر نہیں اتاری تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات تم کیوں نہ کہتے تھے ۔
(آیت) ” وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ “ (6 : 91)
” ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ “
یہ نظریہ مشرکین مکہ دور جاہلیت میں رکھتے تھے ۔ ہر دور میں اس قسم کے لوگ ہمیشہ رہے ہیں ۔ آج دور جدید میں بھی بعض لوگوں کا یہی نظریہ ہے ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام ادیان سماوی انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان ادیان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کی جس طرح انسان نے بتدریج ترقی کی ۔ یہ لوگ اس معاملے میں ان ادیان کے درمیان جو خود لوگوں نے بنائے مثلا قدیم وجدیدیت پرستیاں اور ان ادیان کے درمیان فرق نہیں کرتے جو اللہ کے فرستادہ رسول لے کر آئے اور جواب تک اپنے حقیقی اصولوں پر قائم ہیں ۔ تمام رسول پے درپے انہی ادیان پر قائم رہے ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے ان ادیان کو قبول کیا اور بعض نے انکار کیا ۔ بعد کے زمانوں میں ان کے اصول و فروع کے درمیان تحریف واقع ہوگئی اور لوگ اس تحریف کی وجہ سے دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ نے ان قوموں کے اندر رسول بھیجنے کی ضرورت محسوس کی ۔ آخر کار دین اسلام آیا ۔ ان لوگوں کا نظریہ فقط یہ ہے کہ جس طرح انسان نے ترقی کی اسی طرح ادیان نے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی ۔
یہ بات قدیم لوگوں نے کی یا جدید لوگوں نے ان لوگوں نے فی الحقیقت اللہ کی ذات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے فضل ‘ اس کی رحمت اور اس کے عدل کو صحیح طرح نہیں پہنچانا ۔ ان لوگوں کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو رسول بنا کر نہیں بھیجتا ۔ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا جس طرح بعض عرب یہ کہتے تھے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کے عظیم خالق کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنی مخلوقات میں سے ایک چھوٹے سے ذرے جس کا نام کرہ ارض ہے ‘ کے اوپر بسنے والی اس حقیر مخلوق کی اس قدر فکر کرے جس طرح اہل ادیان کہتے ہیں کہ اس نے رسول بھیجے ‘ رسولوں پر کتابیں بھیجیں تاکہ ان کے ذریعے ان حقیر اہل ارض کو صحیح راستے پر لایا جائے یا جس طرح بعض قدیم اور جدید فلاسفر یہ کہتے آئے ہیں کہ نہ کوئی الہ ہے ‘ نہ کوئی وحی ہے اور نہ رسول ہیں ۔ یہ لوگوں کے ادہام ہیں اور دین کے نام پر بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جس طرح آج کے جدید ملحد اور مادہ پرست لوگ کہتے ہیں ۔
یہ تمام لوگ دراصل اللہ کی ذات کے بارے میں اندازہ لگانے میں غلطی کرتے ہیں ۔ ایک عظیم وکریم ذات ‘ ایک رحیم اور عادل پروردگار اور ایک علیم و حکیم خالق کس طرح انسان کو بلاہدایت اور بلاحکمت وبصیرت چھوڑ سکتا ہے حالانکہ اللہ نے اس انسان کو پیدا کیا ۔ وہ اس کی خفیہ اور ظاہر ہر جبلت سے واقف ہے ۔ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں سے باخبر ہے ۔ وہ اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بھی واقف ہے ‘ وہ اس کی ضروریات اور اقدار کے بارے میں بھی خوب جانتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ اس کے لئے کچھ اصول اور پیمانے وضع نہ کرے جس کے مطابق اس کے اعمال وافعال کو جانچا جائے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی جائے ۔ اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ اس انسان کو جو عقل دی گئی ہے وہ محدود القوت ہے اور اس پر کئی فیکٹر اثر انداز ہوجاتے ہیں ۔ خواہشات نفس اور ذاتی میلانات کے وہ تابع ہوتی ہے ‘ ۔ وہ لالچ اور مفادات سے بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ عقل کے ذمہ از جانب اللہ یہ فریضہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس زندگی کے لئے کوئی مستحکم نظام اور اصول تجویز کرے اس لئے کہ زندگی کا نظام تجویز کرنا اس کا کام نہیں ہے ‘ یہ نظام اس کے لئے منجانب اللہ آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا نظام تجویز کرنے کا کام صرف عقل انسانی پر نہیں چھوڑا ہے اور نہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معفرت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے کہ انسان کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معرفت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے انسان کی اس فطرت سلیمہ پر بھی بعض فیکٹر دباؤ ڈال کر اسے فساد میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ یہ فیکٹر داخلی بھی اور خارجی بھی ہو سکتے ہیں ۔ نیز انسان کو بدی کی طرف انسانوں اور جنوں کے تمام ذرائع اختیار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نظام زندگی کے بارے میں انسان کو صرف وحی اور رسالت کے حوالے کرتے ہیں ۔ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس کی ان ہدایات کی پیروی کرے جو اس نے کتابوں میں اتاری ہیں تاکہ اس کی فطرت درست اور صاف رہ سکے ۔ انکی عقل اور سوچ صحیح سمت میں کام کرسکے ۔ اور ان پر وہ عوامل نہ اندر سے اثر انداز ہو سکیں اور نہ باہر سے جو انسان کو گمراہ کرتے ہیں ۔ یہی پالیسی اللہ کی شان اور اس کے فضل وکرم اور اس کی رحمت اور عدالت اور اس کی حکمت اور علم کے شایان شان ہے ۔ اللہ کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کو پیدا کرکے یونہی چھوڑ دے ۔ قیامت کے دن ان سے حساب و کتاب تو لے لیکن ان کی ہدایات کے لئے کوئی رسول نہ بھیجے حالانکہ اللہ کا اعلان ہے :
(آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ اور ہم کسی قوم کو اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں جب تک ان کے لئے رسول نہ بھیجیں “ ۔ اس لئے اللہ کی الوہیت کا صحیح اندازہ لگانے اور اس کی قدروقیمت کا اقرار کرنے کے لئے لازم ہے کہ یہ اعتراف کیا جائے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے رسول بھیجے ہیں۔ ان رسولوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کی فطرت کو تمام آلودگیوں سے پاک کرکے ‘ اور ان کی عقل وادراک کو تمام مؤثرات سے نکال کر خالص اور آزادنہ غوروفکر کرنے کے لئے آزاد کردیں ۔ اللہ نے ان رسولوں کو دعوت کا منہاج اور طریقہ کار بھی سکھایا اور ان میں سے بعض کو کتابیں بھی دیں جو آج تک موجود ہیں جیسا کہ داؤد اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ نبی آخرالزمان کو قرآن کریم دیا گیا جو آج تک تمام تحریفات سے پاک ہے ۔
چونکہ ساکنان جزیرہ عرب کے ہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت معروف ومشہور تھی اور عرب اہل کتاب کو بھی جانتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کو حکم دیا کہ وہ انکے سامنے اہل کتاب اور کتاب موسیٰ کو بطور مثال پیش کریں کہ اس کا تو کبھی تم نے انکار نہیں کیا ۔
(آیت) ” قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُکُم (6 : 91)
” ان سے پوچھو ‘ پھر وہ کتاب جسے موسیٰ (علیہ السلام) لایا تھا ‘ جو تمام انسانوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی ‘ جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو ‘ اور جس کے ذریعے سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو ‘ آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا ؟ ۔ “
اس سورة پر تبصرے کے وقت ہم نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قول درست نہیں ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ انہوں نے یہ قول اس لئے اختیار کیا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں :” جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپاتے ہو۔ “ ہم نے اس موقعہ پر بتایا تھا کہ ابن جریر کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور اس میں ایک قرات یجعلونہ یبدونھا “ اور یخفون بھی ہے اس صورت میں ضمیر غائب اہل کتاب کی طرف راجع ہے ۔ اگرچہ مخاطب مشرکین مکہ ہیں لیکن بات اہل کتاب کے متعلق ہے ۔ جس طرح انہوں نے عملا کر رکھا تھا کہ تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بعض حصوںٗ کو چھپاتے تھے اور بعض کو اپنے منصوبے اور مقاصد کے مطابق ظاہر کرتے تھے ۔ یوں وہ عوام کو دھوکہ دیتے تھے اور احکام وفرائض کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ان کارناموں سے بعض عرب بھی واقف تھے ‘ جس طرح قرآن کریم بھی ان کا انکشاف کر رہا ہے تو گویا یہ آیت اخبار عن الیھود ہے جو مشرکین مکہ سے ہونے والی بات چیت کے اندر بطور جملہ معترضہ آئی ہے ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ آیت بھی مکی ہے ‘ مدنی نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ابن جریر کی رائے درست ہے ۔
اب مضمون ومفہوم یہ ہوگا : ” اے محمد ﷺ ان سے کہو وہ کتاب جو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جس میں نئی روشنی انسان کو دی گئی تاکہ لوگ راہ ہدایت پائیں جبکہ یہود نے اسے پارہ پارہ کیا ‘ جس میں سے بعض حصوں کو وہ چھپاتے تھے اور بعض کو ظاہر کرتے تھے اور کتاب الہی کے ساتھ یہ مذاق وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے کرتے تھے ۔ “ ذرا غور تو کرو کہ اللہ تمہیں وہ حقائق بتا رہا ہے جن کے بارے میں تم نہ جانتے تھے ‘ اس لئے تم پر یہ فرض ہے کہ اللہ کے اس فضل وکرم کا شکر ادا کرو اور سرے سے تم اس بات کے منکر نہ بن جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے نہ وحی بھیجی ہے اور نہ کوئی کتاب نازل کی ہے ۔
یہ سوال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں موقعہ ہی نہ دیا کہ وہ جواب دیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیں اور فیصلہ کن اور دو ٹوک بات کردیں تاکہ کوئی تنازعہ ہی نہ رہے اور نہ ہی مزید قیل وقال کرنے کے ضرورت رہے ۔
(آیت) ” قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون “۔ (6 : 91) ” بس اتنا کہہ دو کہ اللہ ‘ پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لئے چھوڑ دو ۔ “ اللہ نے اسے نازل کیا ہے ۔ بس یہ کہہ دیں اور اس کے بعد ان کے ساتھ مزید بات چیت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کی کٹ حجتی اور لجاجت اور ظاہر داری کو خاطر میں نہ لائیں اور پھر ان کو چھوڑ دیں کہ وہ اپنی کٹ حجتی میں مگن رہیں ۔ یہ انداز کلام نہایت ہی تہدید آمیز ہے اور اس میں ان کے لئے ایک قسم کی توہین بھی ہے۔ اس سے حق پرستی اور سنجیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ جب لوگوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہوجائے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگیں تو مناسب یہی ہے کہ دو ٹوک انداز میں کہہ دیا جائے کہ ہماری تو یہ راہ ہے تمہاری مرضی ہے ‘ کرو۔
آگے اس کتاب جدید کے بارے میں ایک مختصر تبصرہ آتا ہے ‘ جس کے بارے میں منکرین یہ کہتے تھے کہ اللہ سرے سے کتاب نازل ہی نہیں کرتا ۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ‘ یہ تو کتاب سماوی کا آخری حلقہ ہے ۔ اللہ اس سے قبل بھی رسول بھیجتا رہا ہے ۔ اور ان میں سے جسے چاہتا ہے کتاب عطا کرتا رہا ہے ۔
0%