(آیت) ” نمبر 84 تا 90۔
(آیت) ” وَمِنْ آبَائِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَإِخْوَانِہِمْ “۔ (6 : 87)
” اور ان کے آباء ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے ۔ “ اور اس قافلہ ایمان پر جو تبصرے کئے گئے ہیں ۔
(آیت) ” وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ (84)
” اور ہم نیک کام کرنے والوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں ۔
(آیت) ” وَکُلاًّ فضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِیْنَ (6 : 86)
” اور ان سب کو ہم نے تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ “ اور
(آیت) ” وَإِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْْنَاہُمْ وَہَدَیْْنَاہُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (87)
” اور ہم نے انہیں منتخب کیا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی ۔ “ ان تمام تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قافلہ رسل کس قدر قابل قدر اور کس قدر منتخب لوگوں پر مشتمل تھا اور یہ کہ یہ صحیح راہ کی طرف ہدایت یافتہ تھا ۔ اس گروہ کو اس انداز میں پیش کرنا اور اس کو اس شکل و صورت میں اجاگر کرنا دراصل ایک اہم بات کہنے کے لئے تمہید کے طور پر تھا ۔ بات یہ تھی :
(آیت) ” ذَلِکَ ہُدَی اللّہِ یَہْدِیْ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَلَوْ أَشْرَکُواْ لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (88)
” یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے ۔ “ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہوجاتا “۔ یہ فیصلہ ہے اس امر کا کہ اس کرہ ارض پر ہدایت کے سرچشمے کون سے ہیں ؟ تو انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی وہ تعلیمات ہیں جو رسولوں کے ذریعے بھیجی گئیں اور ان ہدایات الہیہ میں سے جو ہدایات یقینی طور پر ثابت اور محفوظ ہیں وہ اسی منبع اور سرچشمہ قرآن میں ہیں جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہی اس کی ہدایت ہے ۔ اور یہ کہ یہ ہدایت اپنے مختار بندوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے ۔ اگر یہ مختار بندے بھی اس راہ کو چھوڑ دیں اور ہدایت کے اس سرچشمے کو ترک کردیں جس سے وہ ہدایات لیتے ہیں اور نظریات و اعمال اور عقیدہ و عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کردیں تو ان کا انجام بھی یہ ہوگا کہ ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے ‘ ضائع ہوجائیں گے اور وہ اس طرح ہلاک ہوجائیں گے جس طرح کوئی جانور زہریلی گھاس کھا کر پھول جاتا ہے اور اس کی موت واقعہ ہوجاتی ہے ۔ ” حبط “ کے لغوی معنی یہی ہیں ۔
(آیت) ” أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَإِن یَکْفُرْ بِہَا ہَـؤُلاء فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْماً لَّیْْسُواْ بِہَا بِکَافِرِیْنَ (89)
” یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی ۔ اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو (پرواہ نہیں) ہم نے کچھ اور لوگوں کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں ہیں ۔ “
یہ دوسرا نتیجہ ہے پہلی تنقیح میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مصدر ہدایت اللہ ہے ۔ اللہ کی ہدایت وہ ہے جو رسولوں کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچی ہو ۔ دوسری میں یہ کہا گیا کہ جن رسولوں کا ذکر کیا گیا اور جن کی طرف مجمل اشارہ کیا گیا یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے کتاب ‘ حکمت ‘ حکومت اور نبوت عطا کی ۔ اس آیت ” حکم “ اپنے دونوں مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔ بمعنی حکومت بھی استعمال ہوتا ہے اور حکم بمعنی مملکت سلطلنت اور اقتدار بھی استعمال ہوتا ہے اور اس آیت میں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔ ان رسولوں میں سے بعض پر تو کتاب نازل کی گئی مثلا تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ‘ زبور ‘ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ‘ انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور بعض کو اقتدار دیا گیا ۔ مثلا داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو اور ہر ایک کو اس معنی میں اقتدار اعلی دیا گیا کہ اس کے پاس جو ہدایت ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور جو دین وہ لے کر آئے ہیں لوگوں پر اسی کی حکمرانی ہوگی ۔ اللہ نے جو رسول بھی بھیجے ہیں وہ اس لئے بھیجے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے اور اللہ نے جو کتاب بھی بھیجی ہے وہ اس لئے بھیجی ہے کہ لوگوں کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلے کئے جائیں جیسا کہ دوسری آیات میں آتا ہے کہ تمام نبیوں کو حکم اور نبوت دیا گیا ۔ اللہ نے اپنا دین ان ہی کے حوالے کیا تاکہ وہ لوگوں تک اسے پہنچائیں ۔ خود اس دین پر قائم رہیں ایمان لائیں اور اس کی حفاظت کریں ۔ اگر مشرکین عرب اللہ کی کتاب ‘ اس کی حکومت اور نبوت کا انکار کردیں تو اللہ کا دین انکا محتاج نہیں ۔ اللہ کے نبی اور ان کے ساتھی اس دین کے لئے کافی ہیں ۔ یہ دین ایک پرانی حقیقت ہے اور اس درخت کی جڑیں دور تک تاریخ کے اندر پھیلی ہوئی ہیں ۔ رسولوں کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ‘ ایک کے بعد دوسرا آیا ہے اور وہی دعوت لے کر آیا ہے ۔ جس کی قسمت میں اللہ نے ہدایت یافتہ ہونا لکھ دیا تھا اس نے ان سے ہدایت لی کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا تھا کہ کون ہدایت کا مستحق ہے۔ یہ وہ تبصرہ ہے جس کے ذریعے مومنوں کے دلوں کو یقین و اطمینان کے ساتھ بھر دیا جاتا ہے ‘ ہر دور کا گروہ مومن ان ہدایات سے اطمینان حاصل کرسکتا ہے ۔ چاہے تعداد میں وہ کم ہو یا زیادہ ہو ‘ کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا تھا کہ کون ہدایت کا مستحق ہے ۔ یہ وہ تبصرہ ہے جس کے ذریعے مومنوں کے دلوں کو یقین و اطمینان کے ساتھ بھردیا جاتا ہے ‘ ہر دور کا گروہ مومن ان ہدایات سے اطمینان حاصل کرسکتا ہے ۔ چاہے تعداد میں وہ کم ہو یا زیادہ ہو ‘ کیونکہ تحریک اسلامی کے ساتھی چاہے کم ہوں اکیلے نہیں ہوتے ۔ پوری تاریخی اسلامی ان کی پشت پر ہے ۔ یہ ایک ایسا پودا ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر دور تک گئی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں فضا میں دور تک بلند ہیں ۔ یہ تحریک ایک عظیم تاریخی تحریک اسلامی کی ایک کڑی ہے جس کا آخری سرا اللہ تک پہنچا ہوا ہے ۔ ایک منفرد مومن ‘ اس کرہ ارض پر جہاں بھی ہو ‘ جس قوم میں بھی ہو ‘ وہ نہایت ہی طاقتور ہے اور ایک عظیم الشان حقیقت ہے ۔ وہ اس عظیم درخت کی ایک شاخ ہے جس کی جڑیں دور تک ہیں اور انسانی فطرت کی زمین کے اندر گہرائی تک چلی گئی ہیں ۔ انسانیت کے اندر دور تک پھیلی ہوئی ہیں ‘ انسانی تاریخ کے اندر گہرائی تک گئی ہوئی ہیں اور وہ واحد مومن فرد بھی قافلہ اہل ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کی تاریخ زمانوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔
(آیت) ” أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُل لاَّ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ أَجْراً إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِیْنَ (90)
” اے نبی ﷺ وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے ‘ انہی کے راستہ پر تم چلو اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ وہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ‘ یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لئے تمام دنیا والوں کے لئے۔ “
یہ ایک تیسری قرار داد ہے ۔ یہ قافلہ رسل جو اہل ایمان کی جماعت کے قائد ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے راہ ہدایت دکھائی ۔ انکے پاس اللہ کی جانب سے جو ہدایات آتی رہیں وہ نبی آخر الزمان کے لئے بھی مشعل راہ ہیں ۔ ان افراد کے لئے بھی مشعل راہ ہیں جو آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں ۔ لہذا حضور ﷺ انہی ہدایات پر چلیں گے اور اپنی زندگی کے تمام امور میں فیصلے انہی ہدایات سے لیں گے ۔ انہی ہدایات کی طرف پوری انسانیت کو دعوت دیں گے اور آپ امت دعوت کے سامنے یوں گویا ہوں گے ۔
(آیت) ” قل لا اسئلکم علیہ اجرا “۔ (6 : 90) ” میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا “۔
(آیت) ” ھو الا ذکری للعلمین “۔ (6 : 90) ” یہ تو تمام جہان والوں کے لئے صرف ایک نصیحت ہے “۔ یہ نصیحت تمام لوگوں کے لئے ہے یہ کسی ایک نسل ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ قریب وبعید کے ساتھ مخصوص ہے ۔ یہ تو پوری انسانیت کے لئے ایک یاد دہانی ہے اس لئے وہ اس پر کسی اجر کا تقاضا نہیں کر رہے ۔ رسول کا اجر تو اللہ پر ہے ۔
اب آگے یہ مضمون آتا ہے کہ جو لوگ سرے سے نبوت اور رسالت کے منکر ہیں ان کا موقف درست نہیں ہے ۔ ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ مقام الوہیت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکے ۔ نہ اللہ کی حکمت ‘ اس کی رحمت اور اس کے انصاف کے بارے میں ان کا تصور درست ہے ۔ لہذا یہ بات جان لو کہ آخری نبوت بھی سابقہ نبوتوں اور رسالتوں کے طریق پر ہے اور یہ کتاب بھی تمام کتب سابقہ کی تصدیق وتائید کر رہی ہے ۔ تمام انبیائے سابق کی تعلیمات بھی اسی کتاب کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں ۔
0%