undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 83 وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰہَآ اِبْرٰہِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ ط اسی آیت کا حوالہ موضوع کے آغاز میں آیا تھا۔ پوری سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب فرمایا کہ یہ ہماری وہ حجت تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی قوم کے خلاف عطا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے جس انداز سے محاجہ کر رہے تھے اس کو توریہکہتے ہیں۔ توریہ سے مراد ایسا انداز گفتگو ہے جس میں جھوٹ بولے بغیر مخاطب کو مغالطے میں مبتلا کردیا جائے۔ مثلاً حضرت شیخ الہند رض کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک زمانے میں انگریز حکومت کی طرف سے ان کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کیے گئے۔ اس زمانے میں وہ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ شریف حسین والی مکہ کے سپاہی انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے انہیں کہیں کھڑے ہوئے دیکھا۔ وہ آپ کو پہچانتا نہیں تھا۔ اس نے قریب آکر آپ رح سے پوچھا کہ تم محمود الحسن کو جانتے ہو ؟ آپ رح نے کہا جی ہاں ‘ میں جانتا ہوں۔ اس نے پوچھا وہ کہاں ہیں ؟ آپ رح نے دو قدم پیچھے ہٹ کر کہا کہ ابھی یہیں تھے۔ اس سے اس سپاہی کو مغالطہ ہوا اور وہ یہ سمجھتے ہوئے وہاں سے دوڑ پڑا کہ ابھی ادھر تھے تو میں جلدی سے یہیں کہیں سے انہیں ڈھونڈ لوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس کلام میں توریہ کا یہ انداز پایا جاتا ہے۔ جیسے آپ علیہ السلام نے بت خانے کے بتوں کو توڑا ‘ اور جس تیشے سے ان کو توڑا تھا وہ اس بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا۔ پوچھنے پر آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس بڑے بت نے ہی یہ کام دکھایا ہوگا جو صحیح سالم کھڑا ہے اور آل واردات بھی اس کے پاس ہے۔ وہاں بھی یہ انداز اختیار کرنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ لوگ سوچنے پر مجبور اور دروں بینی پر آمادہ ہوں۔نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ یعنی ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے درجے بہت بلند کیے ہیں۔ اب انبیاء و رسل کے ناموں کا وہ گلدستہ آ رہا ہے جس کا ذکر پہلے کیا گیا تھا۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%