undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْْہِ اللَّیْْلُ رَأَی کَوْکَباً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِیْنَ (76)

” چناچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ۔ کہا یہ میرا رب ہے ؟ مگر وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا میں گرویدہ نہیں ہوں ۔ “

یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نفس کی تصویر کشی ہے ان پر معبودان خاندانی کے سلسلین میں شک بلکہ فیصلہ کن انکار پوری طرح حاوی ہوچکا ہے ۔ ان کے والد اور ان کی قوم جن معبودان باطل اور بتوں کی پوجا کر رہے تھے ان کے ذہن نے اس سے ابا کردیا ہے ۔ اور وہ صحیح نظریہ حیات اور صحیح عقیدے کے متلاشی ہیں اور یہ ان کے لئے عظیم مسئلہ بن گیا ہے ۔ اس مسئلے کی تصویر کشی ان الفاظ سے اچھی طرح ہوتی (آیت) ” فلما جن علیہ اللیل) ” جب رات ان پر طاری ہوئی ۔ “ گویا رات نے صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کو گھیر لیا ہے اور یہ رات ان کو دوسرے لوگوں سے علیحدہ کررہی ہے تاکہ وہ رات کی تاریکی میں سکون کے ساتھ اپنے دل میں اس مسئلے پر سوچ بچار کرسکیں اور اسے حل کرسکیں جو انہیں پریشان کر رہا ہے اور بار بار حملہ آور ہوتا ہے ۔ ” چناچہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ‘ کہا یہ میرا رب ہے۔ “ ان کی قوم ستاروں کی بھی پوجا کرتی تھے جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں۔

جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس بات سے مایوس ہوگئے کہ ان کی فطرت کے اندر الہ برحق کی جو تصویر ہے اس کے ساتھ تو یہ بت مطابقت نہیں رکھتے تو انہوں نے شاید یہ امید رکھی کہ وہ الہ برحق بتوں کے علاوہ دوسرے سیاروں اور ستاروں کی صورت میں مل جائے ۔

صورت حال یہ نہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ اور اپنی قوم کو کہیں پہلی مرتبہ ستاروں اور سیاروں کی پوجا کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ نہ صورت حال یہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان ستاروں سیاروں کو پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے لیکن آج کی رات یہ ستارے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جو بات بتا رہے تھے وہ بات انہوں نے اس سے پہلے نہ کی تھی ۔ آج وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ حقیقت بتا رہے تھے ‘ جو آپ کی فطرت کے عین مطابق تھی ‘ جس کے لئے آپ پریشان و۔۔۔۔۔ تھے اور اس کے بارے میں ان پر خیالات و تصورات کا ہجوم رہتا تھا ۔

(آیت) ” قال ھذا ربی “۔ (6 : 76) ” یہ میرا رب ہے ۔ “ اپنے نور اور اپنی چمک اور اپنے مقام بلند کی وجہ سے شاید بتوں کے مقابلے میں اس کا رب ہونا زیادہ ممکن ہے ۔ لیکن نہیں نہیں یہ امکان بھی بعید ہے ‘ ایسا نہیں ہوسکتا ۔

(آیت) ” فلما افل قال لا احب الافلین “۔ (6 : 76) ” جب ڈوب گیا تو بولا میں ڈوب جانے والوں کا گرویدہ نہیں ہوں۔ “ یہ ستارہ یا سیارہ تو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ؟ مخلوقات سے دور ہوجاتا ہے ‘ غائب ہوجاتا ہے ۔ اگر خدا ڈوب گیا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا تو پھر کون ہے جو اس عالم کی تدبیر کرتا ہے ۔ رب ہو اور غائب ہو ‘ نہیں ‘ یہ ستاروہ رب نہیں ہوسکتا ۔ رب تو اوجھل نہیں ہو سکتا۔

یہ ہے فطری اور بدیہی استدلال ۔ یہ منطقی اور جدلیاتی فلسفیانہ استدلال نہیں ہے ۔ یہ وجدانی استدلال ہے جو براہ راست سامنے آتا ہے اور بڑی سہولت سے یقین پیدا کردیتا ہے ۔ پوری انسانیت اور پوری انسانی فکر اسے قبول کرلیتی ہے ۔ اور اسے گہرا یقین حاصل ہوجاتا ہے ۔

(آیت) ” لا احب الافلین “۔ (6 : 76) ”(میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا) انسانی فطرت اور الہ العالمین کے درمیان حقیقی تعلق محبت کا تعلق ہے اور محبت کا یہ ربط قلبی ربط ہے ۔ اسی لئے فطرت ابراہیم ڈوب جانے والوں کے ساتھ محبت نہیں رکھتی ۔ لہذا انہیں الہ تسلیم نہیں کرتی ۔ اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو الہ ہے وہ ہر وقت حاضر ومحبوب ہوگا ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%