undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” 74 تا 79۔

ان آیات میں قرآن کریم نے جس منظر کی تصویر کشی کی ہے وہ ایک عجیب منظر ہے ۔ یہ فطرت انسانی کا مظاہرہ ہے ۔ فطرت انسانی دیکھتے ہیں تمام جاہلی تصورات اور شرکیہ بت پرستانہ عقائد کو رد کردیتی ہے ۔ ان غلط تصورات کو دیکھتے ہیں فطرت دامن جھاڑنی ہے اور تلاش الہ حق کی راہ میں نکل کھڑی ہوتی ہے ۔ یہ حقیقی سچائی خود اس کے ضمیر میں موجود ہے لیکن انسان کو اس کا ادراک نہیں ہے اور فطرت اس پر متنبہ نہیں ہے ۔ لیکن یہ فطرت تلاش حق میں ہر اس چیز سے ربط قائم کرتی ہے جو بظاہر الہ ہو سکتی ہو ‘ لیکن جب ملاحظہ عمیق کرتی ہے تو وہ کھوٹے خداؤں کو رد کردیتی ہے کیونکہ فطرت کے اندر حقیقی الہ کی جو ذات وصفات ودیعت ہیں وہ چیز اس کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتی ۔ جب تلاش کرتے کرتے یہ فطرت کے اندر حقیقی الہ کی جو ذات وصفات ودیعت ہیں وہ چیز اس کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتی ۔ جب تلاش کرتے کرتے یہ فطرت اللہ کی ذات تک جا پہنچتی ہے ۔ تو وہ حقیقت اسے واضح نظر آرہی ہوتی ہے جس سے اسے بےحد خوشی ہوتی ہے ۔ اس کے جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس منزل تک بدلائل پہنچ جاتی ہے وہ خود اس کے اندر پنہاں ہوتی ہے ۔ یہ ہے وہ فطری منظر جو قلب ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھایا جاتا ہے ۔ وہ جس تجربے سے گزرے اسے ان مختصر آیات میں بیان کردیا جاتا ہے ۔ حق و باطل کے بارے میں فطری سوچ کی یہ عجیب کہانی ہے جسے یہاں اس اسلوب میں لایا گیا ہے ۔ یہ ایک نظریہ حیات کا معاملہ ہے جس کا اظہار ایک مومن ببانگ دہل کرتا ہے اور اس معاملے میں وہ کوئی رکھ رکھاؤ نہیں کرتا ۔ اس راہ میں وہ باپ ‘ خاندان اور قوم کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرتا جیسا کہ ایسا ہی رویہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے معاملے میں اختیار کیا انہوں نے ناقابل تغیر اور بالکل غیر لچک دار اختیار کیا اور اپنے موقف کو بالکل واضح کر کے بیان کیا ۔

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لأَبِیْہِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَاماً آلِہَۃً إِنِّیْ أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ (74)

یہ وہ فطری پکار ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبانی ظاہر ہوتی ہے ۔ اگرچہ اپنی فہم و فراست کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو الہ حقیقی تک رسائی حاصل نہ ہوئی تھی لیکن آپ کی فطرت سلیمہ ابتدا ہی سے اس بات کا انکار کر رہی تھی کہ اس کی قوم جن بتوں کی پوجا کرتی ہے وہ حقیقی الہ ہوسکتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم عراق کے کلدانی تھے ۔ وہ بتوں ‘ ستاروں اور سیاروں کے پجاری تھے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت یہ جانتی تھی کہ وہ رب ‘ معبود اور وہ ذات باری جس کی طرف لوگ خوشحالی اور بدحالی میں متوجہ ہوتے ہیں اور جس نے تمام لوگوں اور تمام زندہ مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔ وہ ذات یہ بت نہیں ہیں ۔ بتوں کی ظاہری حالت ہی بتا رہی تھی کہ نہ وہ خالق ہیں ‘ نہ رازق ہیں ‘ نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دیتے ہیں لہذا یہ حقیقی الہ نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے ان کی فطرت تلاش حق کی راہ پر نکل پڑی اور فیصلہ دے دیا کہ یہ الہ جن کی تم پوجا کرتے ہو نہ یہ الہ حقیقی ہیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ انہیں الہ حقیقی تک رسائی کا واسطہ اور ذریعہ بنایا جائے ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت اس صورت حال کو واضح طور پر گمراہی کی صورت حال پاتی ہے اور انہیں صحیح فیصلے تک پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ۔ یہ ہے اس فطرت کا نمونہ کامل جس پر اللہ نے اپنی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔ پھر یہ وہ رد عمل ہے فطرت سلیمہ کا جب اس کا مقابلہ کسی واضح گمراہی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ فورا اس کا انکار کردیتی ہے اور اسے اس سے نفرت ہوجاتی ہے ۔ اس باطل بین کے معاملے میں پھر فطرت سلیمہ اعلان حق کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں کرتی ‘ خصوصا جب معاملہ عقیدے اور نظریات کا ہو۔

” کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔ “ یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کے سامنے کرتے ہیں ‘ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مزاج کے اعتبار سے نہایت ہی نرم مزاج ‘ بردبار اور حلیم الطبع تھے اور پھر وہ تھے بھی ایک بیٹے کی پوزیشن میں لیکن نظریہ حیات کی قدروقیمت باپ بیٹے کے تعلق اور صبر اور برداشت کی صفات کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہ نشان راہ تھے ۔ جس کے بارے میں ان کی اولاد کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس کی پیروی کریں اور یہ قصہ بھی بطور مثال اور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی فطرت کی صفائی اور اپنے خلوص نیت کی بنا پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی بادشاہت کے کچھ مخصوص راز منکشف فرمائیں اور ان کو وہ دلائل عطا کریں جو زمین و آسمان کے اندر اللہ کی بادشاہت کے دلائل ہیں ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%