undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 73 وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ ط یعنی یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے تحت پیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا گیا : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج آیت 191 اے رب ہمارے ‘ تو نے یہ سب باطل بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ گویا حق کا لفظ یہاں باطل کے مقابلے میں آیا ہے۔وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ ط جب وہ چاہے گا اس کائنات کی بساط کو لپیٹ دے گا۔ اسی نے اسے حق کے ساتھ بنایا ہے اور اسی کے حکم کے ساتھ یہ لپیٹ دی جائے گی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط الانبیاء : 104 جس دن ہم ان تمام خلاؤں ‘ فضاؤں اور آسمانوں کو ایسے لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کا طومارلپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سورة الزمر میں ارشاد ہوا : وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ ط آیت 67 اور اس روز آسمان اللہ کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔قَوْلُہُ الْحَقُّ ط۔اس کا فرمان شدنی ہے۔ اس کا کُنْ کہہ دینا برحق ہے۔ اسے تخلیق کے لیے کسی اور شے کی ضرورت نہیں ‘ مادہ material یا توانائی energy کچھ بھی اسے درکار نہیں۔وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ ط۔اگرچہ حقیقت میں تو اب بھی بادشاہی اسی کی ہے لیکن ابھی جھوٹے سچے کئی بادشاہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے ہیں ‘ جو مختلف ڈراموں کے مختلف کردار ہیں۔ مگر یہ سب کے سب اس دن نسیاً منسیا ہوجائیں گے اور پوچھا جائے گا : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط اور پھر جواب میں خود ہی فرمایا جائے گا : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۔ المؤمن عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ۔اس سورة مبارکہ میں اب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر ان کی نسل کے بعض انبیاء کرام علیہ السلام کا ذکر آ رہا ہے۔ انبیاء کے ناموں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ تو سورة النساء کے آخر میں ہم دیکھ آئے ہیں ‘ وہاں ہم نے 13 انبیاء و رسل کے نام پڑھے تھے۔ اب یہاں اس سے ذرا بڑا گلدستہ سجایا گیا ہے ‘ جس میں 17 انبیاء و رسل کے نام شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ آپ علیہ السلام کی قوم کا کیا انجام ہوا ‘ اس کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کے معاملے کو یہاں اس سورة میں الگ کرلیا گیا ہے ‘ کیونکہ اس سورة میں صرف التّذکیر بآلاء اللّٰہ کی مثالیں ہیں ‘ جبکہ سورة الاعراف میں ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّام اللّٰہ کے تحت التذکیر بِاَیَّام اللّٰہ کا ظہور نظر آتا ہے۔ چناچہ حضرت نوح ‘ حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سورة الاعراف میں ہے۔ یہی وہ چھ رسول ﷺ ہیں جن کی قوموں پر عذاب آیا اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%