(آیت) ” نمبر 71۔
اس سورة میں بار بار مضراب قل سے ضربات لگائی جارہی ہیں ۔ یہ نہایت ہی پرتاثیر طرز خطا ہے جس سے یہ تاثر دیا جانا مطلوب ہے کہ حلال و حرام کے حدود وقیود کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے اور رسول اللہ ﷺ تو محض مبلغ اور انجام بد سے ڈرانے والے ہیں ۔ اس انداز کلام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ نہایت ہی اہم ‘ بڑا اور خوفناک ہے ۔ یہ تصورات جو رسول خدا ﷺ پیش فرما رہے ہیں یہ ان کی ڈیوٹی ہے اور انہیں خدا کی جانب سے امر ہے کہ وہ ایسا کریں ۔
(آیت) ” قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَنفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنا “۔ (6 : 71)
اے نبی ﷺ ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان ؟ ۔ “
لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے تھے اور ان سے امداد طلب کرتے تھے ۔ انکی اس حرکت کو برا سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی ﷺ ان سے صاف صاف کہہ دو کہ تم نے جو ان لوگوں کی اطاعت اختیار کر رکھی ہے وہ تمہارے نفع ونقصان کے مالک ہی نہیں ۔ تم ان لوگوں کو کیوں پکارتے ہو ؟ غیر اللہ سے مراد یہاں ‘ بت ‘ آستانے بھی ہیں ‘ درخت وپتھر بھی ہیں ‘ روحانی مخلوق اور فرشتے بھی ہیں اور انسان و شیاطین بھی ہیں ۔ یہ سب کے سب اس لحاظ سے برابر ہیں کہ ان کے قبضے میں کسی کا نفع ونقصان نہیں ہے ۔ وہ اس پوزیشن سے بہت دور ہیں کہ کسی کو نفع ونقصان پہنچا سکیں ۔ اس دنیا میں تمام حرکات و سکنات اور سب کا نفع ونقصان اللہ کی تقدیر کے مطابق ظاہر ہوتا ہے ۔ اللہ کا اذن نہ ہو تو کوئی واقعہ نہیں ہو سکتا اور جو کچھ واقعہ ہوجاتا ہے وہ اللہ کی تقدیر اور راضا کے مطابق ہوتا ہے ‘ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے ۔
غیر اللہ کو پکارنا ‘ غیر اللہ کی بندگی کرنا اور غیر اللہ سے استعانت طلب کرنا قابل نفرت کام ہے ۔ غیر اللہ کے سامنے عاجزی کرنا اور اللہ کے سوا دوسروں کے لئے تمام ایسے نظریات اور اعمال کھوٹے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تردید ونکیر ان باتوں کو دیکھ کر ہو جس پر مشرکین عمل پیرا تھے یا یہ تردید ان کی اس تجویز کی تردید کرتے ہوئے آئی ہو جس میں وہ لوگ تجویز کرتے تھے کہ ہم حضور ﷺ کے خدا کی عبادت شروع کردیں گے بشرطیکہ حضور ﷺ ہمارے الہوں کی عبادت میں شریک ہوں ۔ بہرحال یہ ازخود تردید ہو یا ان کی کسی تجویز کا رد ہو دونوں صورتوں میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ مکمل نظریاتی قطع تعلق کرلیں ۔ مشرکین کے نظریات اور عمل دونوں عقل انسانی کی رو سے نہایت کمزور اور بودے ہیں بشرطیکہ روشن فکری کے ماحول میں عقل کو دعوت فکر دی جائے اور رسم و رواج اور موروثی روایات کی تہوں کے نیچے عقل دبی ہوئی نہ ہو جیسا کہ حضور ﷺ کے دور میں لوگوں کا شعور ماحول میں دبا ہو اتھا ۔
ان مشرکانہ معتقدات اور اعمال کو یہاں ان ہدایات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیں تاکہ اسلامی ہدایات کے بالمقابل ان کا کھوٹ اور ان کا قابل نفرت ہونا اچھی طرح واضح ہوجائے ‘ کیونکہ اللہ نے یہ ہدایت دی ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی عبادت کی جائے صرف اسے ہی الہ اور حاکم تسلیم کیا جائے اور بلا شرکت غیرے اس کے تجویز کردہ نظام زندگی کو قبول کیا جائے ۔ ذرا انداز کلام ملاحظہ ہو ۔ ” اے نبی ﷺ ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ “ اگر ہم ایسا کریں تو یہ صحیح معنوں میں ارتداد ہوگا ‘ الٹے پاؤں پھرنا ہوگا ‘ رجعت پسندی ہوگی ۔ ترقی پسندی اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لوٹنا ہوگا ‘ کیونکہ اسلام نام ہی ترقی پسندی کا ہے ۔
(آیت) ” وَنُرَدُّ عَلَی أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا اللّہُ “ (6 : 71)
” اور جب اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ؟ ۔
اس کے بعد ایک اور متحرک اور مشخص منظر اسکرین پر آتا ہے ۔
(آیت) ” کَالَّذِیْ اسْتَہْوَتْہُ الشَّیَاطِیْنُ فِیْ الأَرْضِ حَیْْرَانَ لَہُ أَصْحَابٌ یَدْعُونَہُ إِلَی الْہُدَی ائْتِنَا “۔ (6 : 71)
” کیا ہم اپنا حال اس شخص کا سا کرلیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو ‘ درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آؤ ‘ سیدھی راہ موجود ہے ؟۔ “
ضلالت وگمراہی اور حیرانی و پریشانی کا یہ ایک متحرک اور جیتا جاگتا منظر ہے جو شخص عقیدہ توحید کے بعد شرک اختیار کرتا ہے ۔ جس کا ضمیر رب واحد اور ارباب متفرقہ کے درمیان گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے ‘ وہ عموما ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے اور فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کون سی راہ اختیار کرے ۔ غرض یہ ایک ایسی بدبخت مخلوق خدا کا منظر ہے ” جسے شیطان نے صحرا میں بھٹکا کدیا ہو ۔ لفظ استہوتہ اپنے مفہوم کی تصویر کشی خود ہی کردیتا ہے ۔ اگر وہ ایک راہ لیتا تو کوئی بات نہ تھی ۔ کسی ایک راہ پر پڑجاتا چاہے وہ گمراہی کی راہ ہوتی ‘ لیکن یہاں وہ جس صورت حال سے دوچار ہے وہ یہ ہے کہ دوسری جانب سے اس کے کچھ ساتھی ہدایت یافت ہیں اور وہ اسے راہ راست کی طرف بلاتے ہیں اور بار بار پکارتے ہیں کہ آؤ بھائی ادھر آؤ ۔ وہ اس شیطانی بےراہ روی اور دوستوں کی پکار کے درمیان حیران وپریشان کھڑا ہے ۔ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کدھر جائے اور دونوں پکارنے والوں میں سے کس کی راہ کا انتخاب کرے ۔ وہ اس نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہے اور قرآن کے الفاظ کے درمیان سے اس شخص کی ذہنی اذیت واضح طور پر نظر آتی ہے ۔
میں جب بھی اس آیت کی تلاوت کرتا تو سوچتا رہتا کہ اس ذہنی کھینچا تانی ‘ کشمکش اور تذبذب کی وجہ سے انسان کس عذاب میں مبتلا ہوتا ہوگا ۔ ایسے افراد کا ایک ذہنی نقشہ سامنے آجاتا ہے لیکن یہ صرف ذہنی تصور ہی ہوتا ہے جبکہ عملی زندگی میں ‘ ہمارے سامنے بعض لوگوں کے حقیقی حالات بھی آئے ہیں جن پر یہ منظر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے اور وہ لوگ اس عذاب میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی نظریہ حیات کو تو پالیا تھا اور اس میں اپنی ذہنی وعملی بساط کے مطابق معرفت بھی حاصل کی مگر اس کے بعد وہ الٹے پاؤں پھرے اور کھوٹے اور جھوٹے الہوں کی پرستش اور اطاعت کرنے لگے ۔ یہ اطاعت انہوں نے خوف اور لالچ کی وجہ سے کی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایسی ہی کربناک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ ایسے لوگوں کے عملی حالات کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس آیت کا حقیقی مفہوم کیا ہے اور قرآن کریم کا یہ اندازبیاں کس قدر جامع اور موثر ہے ۔
ابھی یہ خوفناک منظر آنکھوں کے سامنے تھا اور اس برے انجام کو دیکھ کر دل مومن کانپ ہی رہا تھا کہ صراط مستقیم دکھا دیا جاتا ہے اور فیصلہ کن حکم دیا جاتا ہے ۔
(آیت) ” قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَیَ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (71) وَأَنْ أَقِیْمُواْ الصَّلاۃَ وَاتَّقُوہُ (6 : 72۔ 71)
” کہو ” حقیقت میں صحیح راہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سراطاعت خم کر دو “ ۔ نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ “
نہایت ہی مناسب نفسیاتی حالات میں یہ فیصلہ کن بات ہے ۔ اس لئے کہ جب انسان یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کے سامنے حیرانی اور کشمکش کی ایک تصویر چل رہی ہے ‘ اسے کوئی سکون وقرار حاصل نہیں ہے اور وہ سخت ترین اذیت کا شکار ہے تو ایسے حالات کو دیکھ کر کوئی بھی قاری اس بات کے لئے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ کن اور مطمئن کردینے والی بات کو قبول کرے اور راحت و سکون کی تلاش کرے ۔ یہ فیصلہ کن بات کیا ہے ؟ یہ ہے سچائی ۔ ” راہنمائی تو صرف اللہ کی راہنمائی ہے ۔ “ ھدی اللہ ھو الھدی “ کی ترکیب سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کجہ یہ بات فیصلہ کن ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کی راہنمائی ہی حقیقی راہنمائی ہے ۔
انسان نے جب بھی اللہ کی ہدایت سے منہ موڑا وہ آوارہ صحرا ہوا ۔ نیز اگر انسان اللہ کی راہنمائی کا کچھ حصہ تبدیل کرکے اس کی جگہ اپنے تصورات نافذ کرے ‘ اپنے فارمولے آزمائے ‘ اپنی جانب سے قوانین وضع کرے ‘ اپنے طور طریقے اپنائے ‘ خود ساختہ پیمانے رائج کرے اور یہ سب کام علم الہی ‘ ہدایت الہی اور اللہ کی روشن کتاب کی راہنمائی کے دائرے سے باہر نکل کر کرے تو وہ کبھی بھی راہ راست نہ پائے گا اور بےکنار صحرا ہی میں پھرتا رہے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی قوتیں عطا کی ہیں جن کے ذریعے وہ اس کائنات کے بعض نوامیس فطرت تک رسائی حاصل کرچکا ہے ‘ کائنات کی بعض قوتوں کو اس نے مسخر کرلیا ہے ‘ اس کرہ ارض کا نظام چلانے کے لئے وہ ان قوتوں سے استفادہ کر رہا ہے اور اس دنیا کی زندگی کو ترقی دے رہا ہے لیکن اس کو اللہ نے اس قدر وسیع علم اور قوت نہیں دی ہے کہ وہ اس کائنات کی تمام قوتوں اور تمام حقیقتوں کی تہہ تک پہنچ سکے ‘ نہ یہ حضرت انسان اس عالم غیب کی وسعتوں کے اندر داخل ہو سکتا ہے جو اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ خود انسان کی عقل ، انسان کی سوچ ‘ اس کے جسم کے مختلف اعضاء کا کام کرنا اور اس کے اسباب اور ان اعضاء کا اس طرح مربوط طریقے پر کام کرنا ‘ یہ سب امور ایسے ہیں جو انسان کے لئے ابھی تک عالم غیب کے حصے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ خود اپنی ذات کے بارے میں بھی انسان خدائی ہدایت اور راہنمائی کا محتاج ہے ۔ انسان کی زندگی ‘ اس کے نظریات ‘ اس کی تخلیق ونشوونما ‘ زندگی کی اقدار اور پیمانے ‘ زندگی کا نظام اور طور طریقے ‘ زندگی کے ضوابط اور قوانین ایسے امور ہیں جن میں انسان کو اللہ کی راہنمائی درکار ہے تاکہ ان چیزوں کو اس کی زندگی میں نافذ کیا جاسکے اور اس کی عملی زندگی پر ان خدائی ہدایات کا نفاذ ہو ۔
یہ انسان جب اللہ کی ہدایت کی طرف لوٹ آتا ہے اور ہدایت کو قبول کرلیتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ انسان قرار پاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ کی ہدایت ہی صحیح ہدایت ہے جب بھی وہ اللہ کی ہدایت سے دور ہوتا ہے یا اللہ کی راہنمائی میں سے بعض اجزاء سے انحراف کرتا ہے یا اس میں سے بعض اجزاء کو تبدیل کرکے اس کے اندر خود ساختہ اجزاء پیوست کردیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے اس لئے کہ جو بات اللہ کی راہنمائی پر مبنی نہ ہو تو وہ ضلالت ہے کیونکہ کوئی تیسرا اور درمیانی راستہ موجود نہیں ہے ۔ (فماذا بعد الحق الا الضلال) ” سچائی کے بعد گمراہی کے سوا اور ہے کیا ؟ “ انسان نے اپنی طویل تاریخ میں اس گمراہی کا مزہ خوب چکھا ہے اس کی وجہ سے اس نے بےحد مصائب جھیلے ہیں اور آج تک انسانیت ان مصائب میں مبتلا ہے ۔ انسانی تاریخ نے اپنا یہ حتمی فیصلہ دے دیا ہے کہ اس کا یہی انجام ہوگا ‘ جب بھی وہ اللہ کی راہنمائی سے انحراف کرے گی ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہیں اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ نیز اللہ کا حکم بھی یہی ہے اور اللہ کی جانب سے اطلاع بھی یہی ہے ۔ اس حقیقت کی سوا اور کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اگرچہ دعوی بہت سے حقائق کا کیا جاتا ہے لیکن تاریخ نے کسی کو تصدیق نہیں کی ۔ جو لوگ خدائی راہنمائی سے انحراف کی وجہ سے انسانی مصائب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے معاشروں کا مطالعہ کریں ۔ ایک عقلمند سب کچھ چشم بینا سے دیکھ سکتا ہے ۔ وہ ان مصائب کو ہاتھ سے چھو سکتا ہے ۔ یہ محسوس ہیں اور اس پوری دنیا کے عقلمند لوگ ان کی بابت چیخ و پکار کر رہے ہیں۔
چناچہ سیاق کلام میں مکرر حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کر دو صرف اللہ کے سامنے ۔ اسی سے ڈرو اور اسی کی بندگی اور عبادت کرو ۔ وامرنا۔۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف سے ہمیں حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو اور نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ “
یعنی اے محمد اعلان کر دو کہ راہنمائی اور ہدایت تو صرف اللہ کی راہنمائی اور ہدایت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ رب العالمین ہی کے آگے سرتسلیم خم کر دو ‘ اس لئے کہ عالمین اسی کے آگے جھکتے ہیں ۔ یہ پوری کائنات اس کے آگے پابند حکم ہے ‘ پس کوئی جواز نہیں ہے کہ اس پوری کائنات کے اندر انسان جیسی عقلمند مخلوق اللہ رب العالمین کے آگے نہ جھکے اور اللہ کی ملکیت اور ربوبیت کا انکار کردے اور آسمان و زمین اور پوری کائنات سے مختلف روش اختیار کرے ۔
یہاں پورے جہان اور اس کی ربوبیت کا ذکر بےمحل نہیں ہے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر بات بنتی ہی نہیں ۔ اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا یہ کہ پوری دنیا میں مشہود اور غائب دونوں شامل ہیں اور وہ قوانین قدرت جن کے مطابق یہ رواں دواں ہے ان سے یہ کائنات شمہ بھر انحراف بھی نہیں کرسکتی ۔ اس لئے کہ اللہ رب العالمین ہے ۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے اپنی طبیعی زندگی کے اندر وہ بھی ان نوامیس فطرت کا پابند ہے ۔ انسان کی جسمانی زندگی ان ضوابط کے اندر جکڑی ہوئی ہے اور وہ ان ضوابط کا مطیع ہے ۔ ان کے دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا ۔ لہذا انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس محدود اختیاری زندگی کے اندر بھی اللہ کے ضوابط کی پابندی کرے اور یہ اس کے لئے سخت آزمائش ہے ۔ اس آزمائش میں دیکھا جائے گا کہ وہ راہ ہدایت پالیتا ہے یا صحرائے ضلالت کی طرف جانکلتا ہے ۔ اگر وہ خدائی ضوابط کی اس طرح پابندی کرے جس طرح وہ اپنی طبیعی زندگی کے اندر مطیع نوامیس الہی ہے تو اس کی زندگی خوش اسلوبی سے گزرے گی اور اس کا طرز عمل اور اس کی طبیعی زندگی باہم متناسق ہوں گے ۔ اس کا جسم اس کی روح کا ساتھی ہوگا اور اس کی دنیا آخرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہوگی ۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے (امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب رسالہ دینیات)
یہ کہنا کہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مالک حقیقی کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ‘ اس لئے انہوں نے سرتسلیم خم کردینے کی روش اختیار کی ہے ، ایک نہایت ہی موثر ار مفرح انداز گفتگو ہے اور تا قیامت جو لوگ بھی راہ تسلیم ورضا کو اختیار کریں گے وہ اپنے آپ کو براہ راست امر الہی کا تعمیل کنندہ سمجھیں گے ۔
اب وہ مامورات آتے ہیں جو اعلان تسلیم ورضا کے بعد کا لائحہ عمل ہیں۔
(آیت) ” وَأَنْ أَقِیْمُواْ الصَّلاۃَ وَاتَّقُوہُ (6 : 72) ” نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو “۔
اصل فریضہ یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کیا جائے ۔ اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کی رضا کے مطابق اپنے آپ کو درست کیا جائے ۔ اس کے بعد پھر عبادات کا درجہ آتا ہے اور نفسیاتی اصلاح کا کام شروع ہوتا ہے تاکہ تسلیم ورضا کی اساس پر عملی زندگی کا نقشہ فائع ہو سکے اور عملی زندگی اور تفصیلی نظام زندگی اس وقت تک استحکام حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کی تعمیر مستحکم بنیادوں پر نہ ہو ۔
اس لہر کی آخری ضرب اسلامی نظریہ حیات کے اساسی حقائق کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ یہ حقائق اسلامی نظریہ حیات کے اصلی اور بنیادی عوامل ہیں ۔ مثلا حشر ونشر ‘ تخلیق کائنات ‘ حاکمیت الہیہ ‘ علم غیب اور علم شہادت اور یہ کہ اللہ حکیم وخبیر ہے ۔
0%