undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 68۔

یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے لئے تھا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بعد آنے والے مسلمان بھی اس میں شامل ہوں ۔ یہ حکم کی دور کے لئے تھا ۔ اس وقت آپ کا کام صرف دعوت وتبلیغ تک محدود تھا اور اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ جہاد و قتال سے باز رہیں ۔ آپ کو یہ ہدایت تھی کہ آپ مشرکین کے ساتھ تصادم سے باز رہیں ۔ چناچہ اس دور میں آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ جب دیکھیں کہ مشرکین کی کسی مجلس میں دین اسلام کے خلاف بدتمیزی ہورہی ہے تو آپ ایسی مجالس میں بیٹھنے سے اجتناب فرمائیں اور اگر کبھی ایسا ہو کہ شیطان آپ کو بہلاوے میں ڈال دے اور آپ کسی ایسی مجلس میں پہنچ جائیں اور وہاں اسلام کے بارے میں گستاخانہ باتیں ہو رہی ہوں تو آپ یاد آتے ہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اہل اسلام سب کو یہی حکم تھا ۔ یہاں ظالمون سے مراد مشرکون ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ چکے ہیں ۔ قرآن کریم کا یہ عام انداز گفتگو ہے ۔

لیکن جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو اس وقت مشرکین کے مقابلے میں حضور ﷺ کی پوزیشن مختلف تھی ۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ حضور ﷺ ان کے مقابلے میں اس وقت تک جہاد و قتال جاری رکھے ہوئے تھے جب تک تمام فتنوں کا استیصال نہیں کردیا جاتا اور کسی کو یہ جرات ہی نہی رہتی کہ وہ آیات الہیہ کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کرے ۔

اس کے بعد سیاق کلام مومنین اور مشرکین کے درمیان مکمل فرق و امتیاز کی بات کو پھر دہراتا ہے جس طرح اس سے قبل رسول اللہ ﷺ اللہ اور مشرکین کے درمیان جدائی کا فیصلہ ہوا تھا ۔ یہاں فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ دونوں کے انجام اور ذمہ داریوں میں بھی فرق ہے ۔