undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 65۔

اگر کوئی مصیبت سر کے اوپر آکر پڑتی ہے یا پاؤں کے نیچے سے کوئی مصیبت پھوٹتی ہے تو اس کا تصور دائیں بائیں سے آنے والی مصیبتوں سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے اس لئے کہ انسان کی قوت واہمہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ دائیں بائیں سے آنے والی مصیبت کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن جو عذاب سرکے اوپر سے نازل ہو یا جو عذاب پاؤں کے نیچے سے ابل پڑے وہ انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ‘ اسے متزلزل کردیتا ہے ‘ اور انسان کی محدود قوت پر غالب آجاتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ٹھہرنا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ انداز بیان ایسا ہے جو انسان کے شعور واحساس میں اس قوی فیکٹر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ کا عذاب جب چاہے اور جس طرح چاہے انسان کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے ۔ اللہ کسی بھی وقت بندوں کو پکڑنے کی قدرت رکھتا ہے ۔

اس آیت میں عذاب کی ان قسموں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ‘ عذاب کی ان اقسام کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اور طویل زمانے کے بعد انسان پر آتی ہیں ۔ ان اقسام کا عمل لمحہ بھر یا مختصر عرصے میں پورا نہیں ہوجاتا ۔ یہ اقسام انسان کی ساتھی بن جاتی ہیں ‘ انسان کی آبادی اور اس کی پوری زندگی میں رچ بس جاتی ہیں اور رات دن انسان کی رفیق سفر رہتی ہیں ۔

(آیت) ” اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض “۔ (6 : 65) ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ اللہ کے دائمی اور طویل المدت عذاب کی یہ ایک اور شکل ہے ۔ یہ عذاب انسانوں پر خود اپنے ہاتھوں آتا ہے اور وہ خود اسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں ‘ وہ یوں کہ اللہ انہیں گروہوں اور پارٹیوں میں تقیسم کردیتا ہے ‘ یہ گروہ اور احزاب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجاتے ہیں ‘ وہ ایک قسم کی پارٹیاں ہوتی ہیں ‘ عوام ان فرقوں کے اندر فرق و امتیاز بھی نہیں کرسکتے ۔ ان فرقوں کے درمیان جدل وجدال قائم رہتا ہے ۔ ایک طویل دشمنی قائم ہوجاتی ہے اور ان میں سے ایک فرقہ دوسرے کے لئے بلائے جان ہوتا ہے ۔

انسانیت نے اپنی تاریخ کے مختلف وقفوں میں اس قسم کے عذاب کو محسوس کیا ہے ۔ جب بھی انسان نے اپنی اجتماعی زندگی سے اسلامی نظام حیات کو بدر کیا ہے ‘ انسان اس عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ جب بھی اسلام کو ترک کر کے انسانوں نے اپنی خواہشات اور میلانات کی پیروی شروع کی ہے اور اپنی کوتاہیوں ‘ کمزوریوں اور جہالتوں کو اپنا اصول بنایا ہے وہ اس قسم کے عذاب سے دو چار ہوئے ہیں ۔ جب بھی لوگ راہ گم کردیتے ہیں اور اپنے لئے خود نظام زندگی بنانے لگتے ہیں ‘ اپنے لئے رسم و رواج اور اجتماعی قوانین خود بنانے لگتے ہیں اور حسن قبح کے پیمانے خود تجویز کرنے لگتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انسانوں میں سے بعض لوگ بعض دوسرے انسانوں کے غلام بن جاتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تجویز کردہ نظام زندگی کی اطاعت کریں ۔ اور یوں وہ دوسروں کے غلام بن جائیں اور اس کے مقابلے میں بعض دوسرے لوگ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ یوں فریق اول ان مخالفین پر حتی المقدور مظالم ڈھانے لگتا ہے ۔ اب دو فریق میدان میں ہوتے ہیں ۔ ان دونوں کی خواہشات ‘ میلانات اور مقاصد ومفادات کے درمیان ٹکراؤ ہوجاتا ہے ۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھتے ہیں ۔ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ‘ ایک دوسرے پر غصہ ہوتے اور ان سب تضادات کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں فریق کسی ایک پیمانے پر متفق نہیں ہوتے ۔ وہ پیمانہ معبود نے سب کے لئے تجویز کیا ہے جس کے مطابق تمام لوگ رب ذوالجلال کے بندے ہوتے ہیں ۔ اس رب کے سامنے کوئی بھی جھکنے سے نہیں کتراتا نہ وہ اس عبادت اور جھکنے میں اپنے لئے کوئی سبکی محسوس کرتا ہے ۔

اس کرہ ارض پر سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ یہ مطالبہ لے کر اٹھیں کہ دوسرے لوگ انہیں الہ سمجھتے ہوئے انکی بندگی کریں اور ان کے حق حاکمیت کو تسلیم کریں ۔ یہ وہ فتنہ ہے جس کی وجہ سے انسان گروہوں میں بٹ کر باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں اس لئے کہ بظاہر تو وہ ایک ہی قوم اور ایک امت نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے کے غلام اور بندے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگوں کی ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے اور وہ اس اقتدار کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ اس لئے کہ اس اقتدار میں وہ اللہ کی شریعت کے پابند نہیں ہوتے ۔ بعض دوسرے جن کے ہاتھ میں اقتدار نہیں ہوتا ان کے دل میں اہل اقتدار کے لئے نفرت اور بغض ہوتا ہے یہ صاحبان اقتدار اور ان سے اقتدار چھیننے کی فکر کرنے والے متربصین (گھات میں بیٹھنے والے) ایک دوسرے کی طاقت اور دشمنی کا مزہ چکھتے ہیں ۔ یہ سب لوگ پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے نہ علیحدہ ہوتے اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی فاصلہ ہوتا ہے ۔ وہ ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔ آج اس کرہ ارض پر تمام انسانیت اللہ کے اس عذاب میں مبتلا ہے اور یہ اللہ کا وہ عذاب ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اپنا کام کرتا ہے ۔

اس وقت اس کرہ ارض پر اسلامی تحریک کا جو موقف ہے وہ قابل التفات ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اسلامی تحریک کے موقف کو دنیا پر چھائی ہوئی جاہلیت سے بالکل علیحدہ اور ممتاز کردیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ جاہلیت ہے کیا ؟ ہر صورت حال ‘ ہر حکومت اور ہر معاشرہ جس پر اسلامی شریعت کی حکمرانی نہ ہو ‘ وہ جاہلیت ہے ۔ ہر وہ صورت حال جس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو جاہلیت ہے ۔ اس جاہلیت اور اسلامی تحریک کے موقف کے درمیان مکمل جدائی ضروری ہے ۔ تحریک اسلامی کو ہر قوم اور ہر معاشرے کے اندر جو جاہلیت میں رہتی ہو اور جاہلی قوانین اور اقدار نافذ کرنا چاہتی ہو خود اپنا ایک مستقل اور جدا وجود اور تشخص قائم کرنا چاہئے اور اسے جدا نظر آنا چاہئے ۔

اسلامی تحریک عذاب الہی کی اس دھمکی کی زد سے صرف اس صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ وہ شعوری نظریاتی اور اپنے نظام زندگی کے اعتبار سے اہل جاہلیت سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجائے ، آیت کے یہ الفاظ ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ “ اور یہ مکمل جدائی اور علیحدہ تشخص اس وقت تک قائم رہے جب تک اللہ ہمیں دارالاسلام قائم کرنے کی توفیق نہیں دے دیتا ۔ اسلامی تحریک کے اندر یہ شعور زندہ رہنے چاہئے کہ وہی حقیقی امت مسلمہ ہے اور اس کے اردگرد جو معاشرہ عملا موجود ہے وہ ابھی تک اسلامی امت کا حصہ نہیں بنا ہے ۔ یہ لوگ حاملین جاہلیت ہیں ۔ اس نظریے اور اس منہاج پر تحریک اسلامی کو دوسرے لوگوں سے جدا ہونا چاہئے ۔ اس کے بعد اسے بارگاہ الہی میں دست بدعا ہونا چاہئے کہ اے اللہ ہمارے اور ہماری اس قوم اور اس معاشرے کے اندر حق کے اوپر فیصلہ کر دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

اگر تحریک اسلامی یہ امتیاز اور جدائی اختیار نہیں کرتی تو مذکورہ بالا وعید اور دھمکی کی مستوجب ہوگی ۔ وہ کسی مخصوص معاشرے میں ایک گروہ اور فرقہ بن جائے گی ‘ اور یہ فرقہ بھی دوسرے فرقوں کے ساتھ خلط ملط ہوگا ۔ اس کا کوئی علیحدہ تشخص نہ ہوگا اور نہ اپنے ماحول کے اندر ان کی کوئی امتیازی شان ہوگی ۔ اس پر بھی وہ عذاب نازل ہوگا جو دوسرے لوگوں پر ہوگا اور یہ ایک دائم اور طویل عذاب ہوگا ۔ اور یہ امید تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی فتح اور نصرت نصیب ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے ۔

اپنے معاشرے سے مکمل جدائی اور امتیاز کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور مصائب کے پہاڑ بھی ٹوٹے ہیں ۔ لیکن یہ مصائب اور نـقصانات ان مصائب اور نقصانات سے کہیں کم ہوتے ہیں جو اس صورت میں کسی اسلامی تحریک پر آتے جب وہ جاہلی معاشرے میں خلط ملط ہو اور اس کا موقف واضح اور ممتاز نہ ہو اور وہ جاہلی معاشرے میں مدغم اور پیوستہ رہے اور آخر کار ہر کہ درکان نمک رفت ۔ نمک شد ہوجائے ۔

اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انبیاء ورسل کی تاریخ کا مطالعہ کریں رسولوں کی تاریخ سے یہ بات نظر آتی ہے کہ جب تک رسولوں کے متبعین نے اس وقت کے موجود جاہلی معاشرے سے اپنے آپ کو مکمل طور پر علیحدہ نہیں کرلیا ‘ اس وقت تک انہیں وہ فتح اور نصرت حاصل نہیں ہوئی جس کا اللہ نے تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور رسول آخر کار غالب ہوں گے ۔ کسی امت کو بھی غلبہ اور کامیابی اس وقت تک نصیب نہیں ہوئی جب تک وہ اس وقت کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر علیحدہ نہیں ہوگئی ۔ اور انہوں نے دوسرے لوگوں سے نظریہ اور نظم زندگی علیحدہ اور ممتاز نہیں کرلیا ۔ اس علیحدگی اور امتیاز سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلامی تحریک لوگوں سے معاشرتی بائیکاٹ کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نظریہ حیات اور اپنے دین اور نظام کے اعتبار سے ممتاز ہو ۔ یہ وہ یونٹ ہے جس سے اسلامی تحریکوں اور دوسرے لوگوں کی راہ جدا ہوجاتی ہے ۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دعوت اسلامی کا منہاج وہی ہوگا جس کے مطابق رسولوں نے دعوت دی ۔ اس راہ میں وہی مقامات ہیں جو رسولوں کو پیش آئے ۔

(آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65)

” دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “

درس نمبر 63 ایک نظر میں :

سابق لہر میں اہل حق و باطل کے درمیان مکمل جدائی کے مضمون پر خاتمہ ہوا تھا ۔ اس لہر میں اس کی مزید تفصیل دی گئی ہے ۔ یہ حضور ﷺ کی قوم ہی تھی ۔ جس نے اس کتاب کو جھٹلایا جو آپ پر نازل ہوئی تھی اور وہ کتاب بڑحق تھی ۔ اسی نکتے پر حضور ﷺ اور آپ کی قوم کی راہیں جدا ہوگئیں اور آپ ﷺ نے ان سے علیحدہ ہو کر اپنی راہ لی ۔ آپ ﷺ کو اللہ نے حکم دیا کہ آپ ان سے علیحدہ ہوجائیں اور اعلانیہ کہہ دیں کہ میں تمہارا حوالہ دار نہیں ہوں اور یہ کہ اب میں تمہیں تمہاری تقدیر کے حوالے کرتا ہوں اور تم برے انجام تک پہنچنے والے ہو ‘ وہ عنقریب آنے والا ہے ۔

رسول ﷺ کو یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ جب وہ اسلام پر نکتہ چینیاں کررہے ہوں تو آپ ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں اس وقت جبکہ وہ دین اسلام کے ساتھ مذاق کررہے ہوں اور دین اسلام کا شایان شان احترام نہ کر رہے ہوں ۔ لیکن اس جدائی اور امتیاز کے ساتھ ساتھ حکم یہ ہے کہ انہیں انجام بد سے ڈرایا جاتا رہے اور وعظ وتبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہے ۔ یہ صورتحال بہرحال موجود رہنی چاہئے کہ اہل دعوت اور اہل جاہلیت ایک قوم ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ فرقے ہوں ‘ دو علیحدہ امتیں ہوں ۔ اس لئے کہ اسلام میں رنگ ونسل اور خاندان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہاں تو اتحاد وافتراق کا مدار نظریے ‘ اور عقیدے کی اساس پر ہے ۔ یہ نظریہ اور عقیدہ ہی ہوتا ہے جو نکتہ اتفاق یا مقام افتراق ہوتا ہے ۔ جب دینی اساس پائی جائے تو لوگ متحد ہوجاتے ہیں اور جب دینی عنصر مفقود ہو تو تمام دوسرے روابط کٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس یہی اس لہر کا مختصر مضمون ہے ۔