ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد، خدا کی قسم ہم تم کو نہیں جھٹلاتے۔ یقیناً تم ہمارے درمیان ایک سچے آدمی ہو۔ مگر ہم اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو تم لائے ہو۔ مکہ کے لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ آپ کو ایک اچھا انسان مانتے تھے۔ مگر کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کی زبان پر حق جاری ہوا ہے اس کو بہت بڑا اعزاز دینا ہے اور اتنا بڑا اعزاز دینے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ آپ کو جب وہ ’’سچا‘‘ یا ’’ایمان دار‘‘ کہتے تو ان کو یہ نفسیاتی تسکین حاصل رہتی کہ آپ ہماری ہی سطح کے ایک انسان ہیں۔ مگر اس بات کا اقرار کہ آپ کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوا ہے آپ کو اپنے سے اونچا درجہ دینے کے ہم معنی تھا۔ اور اس قسم کا اعتراف آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔
موجودہ دنیا میں خدا اپنی براہ راست صورت میں سامنے نہیں آتا، وہ دلائل اور نشانیوں کی صورت میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے حق کے دلائل کو نہ ماننا یا اس کے حق میں ظاہر ہونے والی نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا گویا خدا کو نہ ماننا اور خدا كي طرف سے آنکھیں پھیر لینا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا مجبورکن معجزات کے ساتھ سامنے آئے۔ مجبور کن معجزات کے جلو میں خدا کی دعوت پیش کی جائے تو پھر اختیار کی آزادی ختم ہوجائے گی اور امتحان کے لیے آزادانہ اختیار کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ داعی کو اس بات کا غم نہ کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ صرف دلائل کا وزن ہے، غیر معمولی قسم کی تسخیری قوتیں اس کے پاس موجود نہیں۔ داعی کو اس فکر میں پڑنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔ دعوت حق کی جدوجہد ایک طرف داعی کے صبر کا امتحان ہوتی ہے اور دوسری طرف مخاطبین کے لیے اس بات کا امتحان کہ وہ اپنے جیسے ایک انسان میں نمائندۂ خدا ہونے کی جھلک دیکھیں۔ وہ انسان کے منھ سے نکلے ہوئے کلام میں خدائی کلام کی عظمتوں کو پالیں، وہ مادی زور سے خالی دلائل کے آگے اس طرح جھک جائیں جس طرح وہ زور آور خدا کے آگے جھکیں گے — زندہ لوگوں کے لیے ساری کائنات نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور جنھوں نے اپنے احساسات کو مردہ کرلیا ہو وہ قیامت کے زلزلہ کے سوا کسی اور چیز سے سبق نہیں لے سکتے۔
0%