(آیت) ” وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ وَإِن یُہْلِکُونَ إِلاَّ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (26)
” وہ اس امر حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ (وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں) حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ “
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قرآن کریم محض پرانے لوگوں کے قصوں پر مشتمل نہیں ہے اور اس کا پرانے قصوں کے ساتھ کوئی فائدہ نہ دے گا ۔ اگر لوگ قرآن کریم کو سنتے رہے تو اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ قریش کے بڑے بڑے دانشور تو خود اپنے بارے میں یہ خوف رکھتے تھے کہ تلاوت قرآن کریم خود ان کو بھی متاثر کرسکتی ہے ۔ اپنے متبعین کے بارے میں تو انہیں شدید خوف لاحق تھا ۔ اس لئے اس زور دار ‘ پھیلنے والی اور زبردست تحریک اور اہل مکہ کی کمزور اور باطل سوسائٹی کے درمیان برپا کشمکش میں صرف یہ امر کافی نہ تھا کہ نضر ابن حارث حضور ﷺ کے بالمقابل مجلس لگائے اور اس میں اہل فارس کے ادبی شہ پارے پیش کرے ۔ لہذا امتناعی تدابیر کے طور پر وہ اپنے متبعین کو قرآن کریم سننے سے منع کرتے تھے اور خود بھی اپنے آپ کو ایسے مواقع سے دور رکھتے تھے جہاں وہ قرآن کریم سنیں ۔ محض اس خوف سے کہ کہیں وہ خود ہی متاثر نہ ہوجائیں اور اسے قبول ہی نہ کرلیں ۔ اخنس ابن شریق ‘ ابو سفیان ابن حرب اور عمرو ابن ہشام کا قصہ تو بہت ہی مشہور ہے ۔ یہ لوگ قرآن کریم کی اس جاذبیت کا مقابلہ کرتے تھے لیکن قرآن کریم پھر بھی انہیں اپنی طرف کھینچ لاتا تھا۔ (دیکھئے ابن ہشام جزء اول اور ظلال القرآن پارہ ششم)
یہ تمام پاپڑ وہ اس لئے بیلتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کو قرآن سننے سے بچا سکیں تاکہ وہ اس سے متاثر نہ ہوجائیں اور اسے قبول نہ کرلیں اور یہ کام درحقیقت خود ان کے لئے باعث ہلاکت تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” وہ درحقیقت خود اپنی تباہی کا سامان کرتے تھے مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ “
جو شخص اپنے آپ کو اور دوسروں کو راہ ہدایت ‘ راہ حق اور راہ نجات سے روکے رکھتا ہے وہ دنیا وآخرت دونوں میں خود اپنے آپ کو خسارے اور ہلاکت میں ڈالتا ہے ۔ وہ لوگ جو خود اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ‘ دراصل وہ مساکین ہیں ۔ اگرچہ وہ بڑے قہار وجبار اور بڑے بڑے طاغوت نظر آتے ہیں ۔ وہ تو دنیا وآخرت میں صرف اپنے اوپر اختیار رکھتے ہیں ۔ اگرچہ انہیں اور ان کے متبعین کو دنیا میں بعض اوقات ایک مختصر عرصے کے لئے یہ نظر آتا ہے کہ وہ بہت ہی فائدے میں ہیں اور کامیاب ہیں ‘ لیکن دراصل وہ مفلس ہوتے ہیں ۔ اور ان کا آخری انجام کیا ہونے والا ہے تو پھر ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں :