(آیت) ” نمبر 25 تا 28۔
اس کی تصویر کے یہ دو رخ ہیں ۔ ایک رخ دنیا سے متعلق ہے جس میں عناد ‘ بغض اور سرکشی کے رنگ بھرے ہوئے ہیں اور دوسرا رخ آخرت سے متعلق ہے اور اس میں حسرت اور ندامت کے رنگ ہیں ۔ قرآن کریم ان دونوں حالتوں کی تصویر کشی نہایت ہی موثر اور اشاراتی انداز میں کرتا ہے ۔ جامد فطرت پگھل جاتی ہے اور اس میں حرکت اور جوش پیدا ہوجاتا ہے ‘ شاید کہ اس کے اوپر جہالت کی جو تہیں چڑھی ہوئی ہیں وہ دور ہوجائیں اور فطرت کے بند دریچے وا ہوجائیں اور قبل اس کے کہ وقت ختم ہو وہ راہ راست پر آجائے ۔
(آیت) ” وَمِنْہُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْْکَ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّۃً أَن یَفْقَہُوہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِن یَرَوْاْ کُلَّ آیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُواْ بِہَا (6 : 25)
” ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۔ (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے) وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ‘ اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔
انسانیت کے یہ ایسے نمونے ہیں کہ بظاہر سنتے ہیں لیکن ان کے دلوں پر پردے ہیں ۔ اکنہ کے معنی ہیں غلاف ۔ اور یہ غلاف قوت مدرکہ کو بند کردیتے ہیں ۔ الوقر کا مفہوم ہے بوجھ یعنی ان کے کان بھاری ہیں ‘ اس لئے اس بھارے پن کی وجہ سے وہ سننے کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے ۔ اس قسم کے لوگ انسانیت کا حصہ ہیں اور ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے میں ایسے لوگ ہوتے ہی ہیں ۔ یہ ٹھیک ٹھیک انسان ہوتے ہیں۔ بظاہر وہ بات سنتے ہیں لیکن سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ ان کے کان گویا بہرے ہیں ۔ اپنا فریضہ منصب فطری ادا نہیں کرتے ۔ ان کی قوت مدرکہ گویا غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے اور اس تک قرآنی مدلولات نہیں پہنچے ۔
(آیت) ” حَتَّی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأَوَّلِیْنَ (25)
” حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ (ساری بات سننے کے بعد) کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ “
ان کی آنکھیں بھی دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ کچھ نہیں دیکھ رہی ہوتیں ۔ جو منظر وہ دیکھتی ہیں ان کا ان کے دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا بات ہے جو انہیں سمجھنے اور قبول کرنے سے روک رہی ہے ؟ حالانکہ وہ سننے والے کان ‘ بینا آنکھیں اور تیز علق کے مالک ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں جن کی وجہ سے وہ کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ہے ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ “
یوں ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا ادراک اس حقیقت تک نہ پہنچ سکے گا اور نہ ہی اسے سمجھ سکے گا ان کی قوت شنوائی کام چھوڑ دے گی ۔ وہ ان کی قوت مدرکہ تک ان کی رہنمائی ہی نہ کرے گی کہ وہ اسے سمجھ سکیں اور قبول کریں چاہے وہ اپنی آنکھوں سے حقائق کو دیکھ رہے ہوں اور دلائل ایمان ان کے سامنے ہوں ۔ ہاں ‘ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس فیصلے میں سنت الہیہ کو پڑھنے کی سعی کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
(آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ ” جو لوگ ہمارے بارے میں سعی کریں گے ہم انہیں ضرور اپنی راہوں کی طرف لے جائیں گے ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔
(آیت) ” وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا (7) فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا (9) وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا (10) ” اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا ‘ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی ‘ یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ۔ “ (الشمس)
اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت پانے کی جدوجہد کر رہا ہو اور ہر اس شخص کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جو اپنے نفس کو پاک اور مطہر کرلے ۔ مذکورہ بالا لوگوں کا رویہ یہ رہا کہ انہوں نے قبول ہدایت کے لئے کوئی سعی نہ کی اور انہوں نے قبولیت حق کی فطری قوتوں کو اس طرف متوجہ ہی نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت حق کی توفیق دے دیتا ۔ انہوں نے قبولیت حق کی فطری قوتوں کو اس طرح متوجہ ہی نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت حق کی توفیق دے دیتا ۔ انہوں نے دراصل اپنی فطری قوتوں کو معطل کردیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے اور سچائی کے درمیان حجاب ڈال دیا ۔ ان کے بارے میں سنت الہیہ کے مطابق فیصلہ یہ ہوا کہ انہیں ان کے پہلے فعل اور ان کی نیت اور ارادے پر چھوڑ دیا جائے ۔ ہر کام اللہ کے حکم اور امر الہی سے ہوتا ہے اور اللہ کا امر اور حکم یہ ہے کہ جو بھی جدوجہد کرے اسے راہنمائی فراہم کی جائے اور جو بھی تزکیہ نفس کرے کامیاب ہو ۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ اعراض کرنے والوں کے دلوں پر پردے ڈال دے اور وہ سمجھ ہی نہ سکیں ۔ ان کے کان بہرے ہوجائیں اور وہ سن ہی نہ سکیں ۔ اپنی آنکھوں سے آیات و دلائل دیکھیں اور ہدایت نہ پاسکیں ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی گواہی ‘ ان کی جانب سے شرک کا ارتکاب اور انکی تمام خطاکاریاں اللہ کے ارادے کے نتیجے میں ہیں اور یہ کہ ان کے بارے میں تو اللہ نے پہلے ہی فیصلے کردیئے ہیں ۔ وہ اپنی اس سوچ میں مغالطے کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے حقیقت پیش فرماتے ہیں۔ ان کے یہ اقوال نقل کر کے ان کا سقم ظاہر فرماتے ہیں ۔ ذرا اس آیت پر غور کریں :
(آیت) ” وقال الذین اشرکوا لو شآء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن ولا ابآؤنا ولا حرمنا من دونہ من شیء کذلک فعل الذین من قبلھم فھل علی الرسل الا البلغ المبین ۔ (35) ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت فمنھم من ھدی اللہ ومنھم من حق علیہ الضللۃ فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ (36) (16 : 35۔ 36)
” یہ مشرکین کہتے ہیں ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ۔ اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسے ہی بہانے ان سے لوگ بھی بناتے رہے ہیں ۔ تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے ؟ ۔ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ‘ اور اس کے ذریعے سے سب خبر دار کردیا کہ ” اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ “ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی ۔ پھر ذرا چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے ؟ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول پر ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ کہ ان کی گمراہی کا فیصلہ اس لئے کردیا گیا کہ ان پرفریضہ تبلیغ ادا ہوگیا ۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا ۔
جو لوگ قضا وقدر اور صبر اور اختیار کے مسائل میں اور بندے کے ارادے اور اس کے عمل کے بارے میں فضول مباحث کرتے ہیں اور ان سادہ سے مسائل کو پیچیدہ لاہوتی مباحث بنا دیتے ہیں وہ ان باتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو ان کی عقل میں آتی ہیں ۔ یہ لوگ فرضی وتقدیر کے انداز میں بحثیں کرتے چلے جاتے ہیں ‘ مگر قرآن کریم کے مثبت ‘ سادہ اور حقیقت پسندانہ طرز فکر کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ سادہ حقیقت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ تقدیر الہی کے مطابق ہوتا ہے اور یہ کہ انسان کا ایک طرف مائل ہونا یا دوسری طرف مائل ہونا اس کی اس فطرت میں داخل ہے ‘ جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے ۔ یہ فطرت بھی تقدیر الہی کے مطابق ہے ‘ اور وہ اسی طرح ہے جس طرح تقدیر الہی ہے ۔ انسان کا کسی طرف مائل ہونا اور اس پر دنیا اور آخرت کے نتائج کا مرتب ہونا بھی تقدیر الہی کے حدود کے اندر ہے ۔ تمام امور اللہ کی تقدیر کی طرف لوٹتے ہیں لیکن یہ تمام نتائج انسان کے ادارے پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان کا یہ ارادہ بھی تقدیر الہی کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ ہے اصل حقیقت اور اس سے آگے اگر کوئی بحث کرتا ہے تو ماسوائے اس کے کہ وہ مزید پیچیدگیوں میں مبتلا ہو اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔
مشرکین کی صورت حال یہ تھی کہ ان کے سامنے ہدایت کی علامات پیش کردی گئی تھیں ۔ سچائی کے دلائل واضح کردیئے گئے تھے اور ایمان کے اشارات ان پر واضح کردیئے گئے تھے ۔ قرآن کریم میں ان پر انفس وآفاق میں بکھرے ہوئے دلائل جمع کردیئے گئے تھے ۔ اگر ان کے دل اس طرف متوجہ ہوتے تو صرف قرآنی دلائل ہی اس بات کے لئے کافی وشافی تھے کہ وہ مشرکین کے قلوب کی تاروں کو زمزمہ خیز بنا دیتے اور ان کے خفیہ گوشہائے ادراک کو جگاتے ‘ ان کو زندگی بخشتے اور اس طرح ان کے دل ہدایت کو قبول کرکے لبیک کہتے ۔ لیکن انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے کوئی زحمت گوارا نہ کی جس سے وہ راہ ہدایت پا لیتے بلکہ انہوں نے اپنی فطرت اور اس کے صحیح رجحانات کو معطل کردیا ۔ اس طرح ان کے اور اشارات ہدایت کے درمیان پردے حائل ہوگئے ۔ جب وہ حضور اکرم ﷺ کے پاس آتے تو وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ نہ آتے ۔ ان کے کان بھی سننے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔ ان کے دل سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوتے اور وہ قرآن پر اس طرح تدبر نہ کرتے جس طرح حق اور سچائی کے متلاشی اس پر غور کرتے ہیں بلکہ وہ قرآن کا مطالعہ ہی اس لئے کرتے کہ مجادلہ کریں اور اس کی تکذیب اور اس کے رد کے مواقع تلاش کریں ۔
(آیت) ” حَتَّی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأَوَّلِیْنَ (25)
” حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔
اساطیر اسطورہ کی جمع ہے ۔ اور اسطورہ کا اطلاق ان کہانیوں پر ہوتا تھا ‘ جن میں خداؤں کے بارے میں خارق عادت کہانیوں کا ذکر ہوتا تھا یا بڑے بڑے لیڈروں بہادروں اور بت پرستی کے واقعات کا تذکرہ ہوتا تھا عربوں میں زیادہ ترایرانی بت پرستی کے قصے مشہور تھے کیونکہ وہ عربوں کے قریب تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرکین اچھی طرح جانتے تھے کہ قرآن کریم کا ان پرانی داستانوں کے ساتھ تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ محض انکی جانب سے مجادلہ تھا اور وہ قرآن کریم کو رد کرنے اور اس کو جھٹلانے کے لئے حیلے بہانے تلاش کر رہے تھے اور قرآن سے دور دراز کی باتیں تلاش کرکے ان کے ذریعے قرآن کو رد کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں چونکہ رسولوں اور ان کی اقوام کے واقعات وقصص مذکور تھے ‘ نیز اس میں ان اقوام کا بھی ذکر تھا جن کو اللہ نے ہلاک فرمایا تھا تو محض فریب کاری اور نہایت ہی بودے اعتراض اور دور کی کوڑی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ لاتے تھے ۔ چناچہ ان نصوص بلکہ پورے قرآن کے بارے میں وہ یہ تبصرہ کرتے ” کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “
لوگوں کو اس قرآن کریم سے دور رکھنے کی سازش کو مزید گہرا کرنے کے لئے اور اسے نہایت ہی پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھانے کی خاطر کہ قرآن کریم ایک داستان پارینہ ہے ‘ مکہ کا ایک دانشور نضر بن حارث اہل فارس کے رستم واسفندیار کی داستانیں حفظ کرتا اور اس طرح اہل فارس کے دوسرے لیڈروں اور بہادروں کے قصے اور کہانیاں جمع کرتا ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب ہی اپنی مجلس قائم کرتا جبکہ حضور ﷺ لوگوں کے سامنے قرآن مجید پڑھتے ۔ وہ لوگوں سے کہتا اگر محمد تم پر لوگوں کے افسانے پڑھتا ہے تو میرے پاس اس کے مقابلے میں زیادہ ادبی مواد ہے ۔ اس کے بعد وہ رستم واسفند یار کے قصے شروع کردیتا اور یہ تدبیر وہ اس لئے کرتا تھا کہ لوگ قرآن کو نہ سنیں۔
یہ لوگ عوام الناس کو قرآن سننے سے بھی منع کرتے تھے اس لئے کہ اس وقت کی سوسائٹی کے وہ لوگ لیڈر تھے ۔ وہ لوگوں کو ایسے مواقع سے دور رکھتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں وہ قرآن کریم کی تلاوت سن کر اس سے متاثر نہ ہوجائیں ۔