آیت 25 وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ج۔مکہ میں قریش کے سرداروں کے لیے جب عوام کو ایمان لانے سے روکنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے بھی علماء یہود کی طرح ایک ترکیب نکالی۔ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ آکر حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے اور بڑے انہماک سے کان لگا کر آپ ﷺ کی باتیں سنتے۔ وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم سب کچھ بڑی توجہ سے سن رہے ہیں ‘ تاکہ عام لوگ دیکھ کر یہ سمجھیں کہ واقعی ہمارے ذی فہم سردار یہ باتیں سننے ‘ سمجھنے اور ماننے میں سنجیدہ ہیں ‘ مگر پھر بعد میں عوام میں آکر ان باتوں کو ردّ کردیتے۔ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ ان کی ایک چال تھی ‘ تاکہ عوام یہ سمجھیں کہ ہمارے یہ سردار سمجھدار اور ذہین ہیں ‘ یہ لوگ شوق سے محمد ﷺ کی محفل میں جاتے ہیں اور پورے انہماک سے ان کی باتیں سنتے ہیں ‘ پھر اگر یہ لوگ اس دعوت کو سننے اور سمجھنے کے بعد ردّ کرر ہے ہیں تو آخراس کی کوئی علمی اور عقلی وجوہات تو ہوں گی۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں ان کی اس سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ ان میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کی باتیں بظاہر بڑی توجہ سے کان لگا کر سنتے ہیں۔وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًاط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا ط۔اللہ نے ان کے دلوں اور دماغوں پر یہ پردے کیوں ڈال دیے ؟ یہ سب کچھ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جب نبی کے مخاطبین اس کی دعوت کے مقابلے میں حسد ‘ تکبر اور تعصب دکھاتے ہوئے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں تو ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ آیت 7 میں فرمایا گیا : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌز۔ لہٰذا ان کا بظاہرتوجہ سے نبی ﷺ کی باتوں کو سننا ان کے لیے مفید نہیں ہوگا۔حَتّٰیٓ اِذَا جَآءُ وْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۔ یہ جو کچھ آپ ﷺ ہمیں سنا رہے ہیں یہ پرانی باتیں اور پرانے قصے ہیں ‘ جو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہودیوں اور نصرانیوں سے سن رکھے ہیں۔