حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔
اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔
اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔
جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔