You are reading a tafsir for the group of verses 6:21 to 6:24
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 21 تا 24۔

بات کی مناسب سے اب مشرکین کے سامنے وہ حقیقت رکھی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں قائم تھے ۔ اس کی روشنی میں ان کے موقف اور عمل کو خدا تعالیٰ کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ذرا وہ اپنے رویے پر غور کریں کہ وہ اللہ پر افترا پردازی کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ اس دین پر ہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے تھے ۔ اور ان کے مزعومات میں سے یہ بھی تھا کہ وہ خود جن چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیتے تھے ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جیسا کہ اس سورة کے آخر میں لفظ بزعمہم سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اس چیز کی حلت یا حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا تھا ۔ جس طرح آج ہمارے زمانے میں بیشمار لوگ دعوائے اسلام کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا یہ دعوی سراسر جھوٹا ہے ۔ اور اللہ پر افتراء ہے ۔ وہ خود اپنی جانب سے قوانین اور فرامین جاری کرتے ہیں ‘ خود اپنی جانب سے زندگی کے اوضاع واطوار اور رسومات پیدا کرتے ہیں اور اپنی جانب سے نئی نئی چیزیں جاری کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان معاملات میں اللہ کے اقتدار اعلی کو غصب کرلیتے ہیں اور خود مقتدر اعلی بن بیٹھتے ہیں ۔ پھر بھی ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر ہیں جو سراسر جھوٹ ہے ۔ ان میں سے تعلیم یافتہ لوگ جنہوں نے اپنا دین فروخت کردیا ہے اور اپنے لئے جہنم کے بدترین درجے کو الاٹ کرا لیا ہے وہ ایسے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ پھر بھی مسلمان ہیں ۔ ان آیات میں ان کی جانب سے پیش کی جانے والی آیات کو جھٹلانے پر بھی ان کے خلاف نکیر کی جاتی ہے ۔ انہوں نے آیات الہیہ کو مسترد کیا ‘ ان کا مقابلہ اور انکار کیا ‘ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ آیات از جانب اللہ نہیں ہیں اور جس جاہلیت پر وہ عمل پیرا ہیں وہ از جانب اللہ ہیں ۔ یہ موقف بعینہ ویسا ہی ہے جس طرح آج کے دور میں اہل جاہلیت جدید اس کے مدعی ہیں ۔ ان دونوں کا موقف بالکل یکساں ہے ۔

(آیت) ” وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیتہ “۔ (6 : 21) ” اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ “ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے شرک کو ظلم اس لئے کہا گیا ہے کہ لفظ ” ظلم “ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس کے گھناؤنے پن اور قباحت کا اظہار اچھی طرح ہوجائے ۔ قرآن کریم میں بیشتر شرک کی تعبیر ظلم سے کی جاتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے ایک نہایت ہی برافعل سمجھ کر اس سے متنفر ہوجائیں اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ شرک سچائی کے ساتھ ظلم ہے ۔ نفس انسانی کے ساتھ ظلم ہے اور عوام الناس پر ظلم ہے ۔ اس لئے کہ کبریائی صرف اللہ کا حق ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ اس سے اللہ کی حق تلفی ہوگی ۔ نفس انسانی پر یہ اس لئے ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے یہ دائمی ہلاکت میں پڑجائے گا ۔ اور لوگوں پر ظلم یہ ہے کہ وہ معرفت حق سے محروم ہوں گے اور ان کی زندگی ایسے اصولوں کے تحت چلتی رہے گی جو ظالمانہ ہوں گے ‘ غرض شرک ہر پہلو سے ظلم عظیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے آخر میں رب العالمین خود فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” انہ لا یفلح الظلمون “۔ (6 : 21) یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ “

یہاں اللہ تعالیٰ ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیتے ہیں اور حکم آجاتا ہے کہ مشرک یا ظلم اور ظالموں کا انجام کیا ہوگا ۔ انسانوں کی کوتاہ نظر آنکھیں جو کچھ دیکھ سکتی ہیں وہ قابل اعتبار حقیقت نہیں ہوتی ۔ انسان کی نظر نہایت ہی قریبی فاصلے تک ہوتی ہے ۔ انسان صرف دنیوی فلاح اور نجات کو دیکھ سکتا ہے ۔ یہ ہے وہ تدبیر جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو انجام بد تک پہنچاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ صادق القول اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔

اس موقعہ پر قرآن ان کی ناکامی اور عدم فلاح اور ان کے غلط موقف کی ایک تصویر کشی نہایت ہی زندہ ‘ متحرک اور دلکش الفاظ میں فرماتے ہیں :

(آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) (6 : 22 تا 24)

” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرک کی کئی قسمیں ہیں ۔ اللہ کے ساتھ ٹھہرائے ہوئے شرکاء کی بھی کئی اقسام ہیں اور صورت حال وہ نہیں ہے جو عام طور پر کلمہ شرک اور شرکاء اور مشرکین کے اطلاق سے آج کل عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ بتوں اور پتھروں کی پوجا کرتے ہیں یا پتھروں ‘ درختوں اور آگ وغیرہ کے مظاہر کی پرستش کرتے ہیں ۔ بس یہی ہے شرک کا مفہوم ۔

درحقیقت شرک تو یہ ہے کہ کوئی اللہ کے سوا کسی اور کے بارے میں یہ اعتراف کرے کہ ذات باری کے خصائص میں سے کچھ خصائص اس میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ چاہے وہ نظریاتی امور ہوں جن میں کا اس کائنات کے تصرفات میں سے کوئی امر اللہ کے سوا کسی اور سے منسوب کیا جائے ‘ یا مراسم عبودیت ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے بجا لائے جائیں مثلا عبادت اور نذر ونیاز وغیرہ یا زندگی کے نظام کو درست کرنے کے لئے اصول اور ضابطے اللہ کے سوا کسی اور سے لیے جائیں ۔ یہ سب کے سب شرک کے الوان و اقسام ہیں ۔ اس شرک کا ارتکاب یوں ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایک قسم کا شرک کرتے ہیں اور بعض دوسری قسم کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر مختلف قسم کے مشرکین کے شرکاء اور معبود بھی مختلف ہوتے ہیں۔

قرآن کریم نے ان تمام اقسام پر کلمہ شرک کا اطلاق کیا ہے اور شاید قیامت کے منظر کے اندر ان مشرکین اور شرکاء کے زندہ مناظر پیش کرکے اہل ایمان کو حقیقت سمجھانے کی سعی کی ہے ۔ قرآن کریم نے لفظ شرک کو کسی ایک مفہوم تک محدود نہیں رکھا ہے اور نہ ان میں سے کسی ایک مفہوم سے متصف کسی شخص کو مشرک کہا ہے اور نہ دنیا اور آخرت میں ان تمام اقسام کے مشرکین کے انجام اور سزا اور ان کے ساتھ تعلق میں کوئی فرق کیا ہے ۔

عربوں کے اندر شرک کی یہ تمام اقسام پائی جاتی تھیں ۔ عربوں میں یہ اعتقاد موجود تھا کہ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض اللہ کے ساتھ شریک ہیں ۔ یہ شرکت اس طرح ہے کہ اللہ کے ہاں جو بات وہ کہتے ہیں وہ لازما منظور ہوتی ہے ۔ لوگوں کی قسمتوں کے فیصلوں اور واقعات کی رونمائی میں ان کا بھی داخل ہوتا ہے ۔ مثلا فرشتے شریک ہوتے ہیں یا یوں کہ یہ مخلوقات انسان کو اذیت دینے پر قادر ہے ۔ مثلا جنات نقصان دیتے ہیں ۔ یا دونوں طریقوں سے یہ انسان کو اذیت دے سکتے ہیں ۔ مثلا آباؤ و اجداد کی روحیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ ان جنات ‘ کاہنوں اور اجداد کی ارواح کی طرف اشارات کے طور پر یہ لوگ ان کی طرف منسوب بت بناتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ ان بتوں کے اندر ان خدا رسیدہ مخلوقات کی روح آجاتی ہے ۔ کاہن پھر ان روحوں اور بتوں کے ساتھ ہم کلام بھی ہوتے تھے ۔ یوں ان کے لئے یہ کاہن اس اسلوب اور اٹکل سے بعض چیزوں کو حرام کرتے تھے اور بعض کو حلال کرتے تھے ۔ اس طرح درحقیقت یہ کاہن ہی تھے جو یہ کام کرتے تھے اور وہی شریک کا درجہ رکھتے تھے ۔

مزید برآں شرک کا ارتکاب وہ اس طرح بھی کرتے تھے کہ ان بتوں کے سامنے مراسم بندگی ادا کرتے تھے ۔ ان کے استھانوں پر قربانیاں کرتے اور ان کی نذریں مانتے تھے ۔ یہ قربانیاں اور نذریں اور عبادات بھی دراصل وہ ان کاہنوں کی کرتے تھے ۔ بعض عرب ایرانیوں کے زیر اثر یہ بھی عقیدے رکھتے تھے کہ کواکب کو بھی واقعات عالم میں اثر ودخل حاصل ہے ‘ اور اس طرح گویا یہ ستارے بھی خدا کے شریک ہیں ۔ چناچہ عربوں کے اندر ستارہ پر ستی داخل ہوگئی ۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ لایا گیا ہے وہ بھی اسی نقطہ نظر سے لایا گیا ہے اور اس سورة کے موضوع سے یہی بات اس قصے کو مربوط کردیتی ہے ۔ (جیسا کہ آگے ہم بتائیں گے انشاء اللہ)

شرک کی تیسری صورت بھی ان عربوں کے اندر رائج تھی ۔ یہ لوگ کاہنوں کی مدد سے اپنے لئے دستور اور قانون خود بناتے تھے اور زندگی کے طور طریقے اور رسم و رواج اپنے لئے خود وضع کرتے تھے ۔ اگرچہ اس کے اندر قانون سازی کی اجازت اللہ نے نہ دی تھی لیکن خود قانون بنا کر وہ دعوی یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ کا قانون اور شریعت ہے جس طرح آج کے بعض سیاسی مفکر ایسا دعوی کرتے ہیں ۔

پس اس منظر میں ‘ یعنی قیامت کے دن ‘ اللہ تعالیٰ تمام قسم کے شرکاء کے بارے میں لوگوں کو بلا کر یہ سوال کریں گے کہ لاؤ ان کو اب جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے تھے ؟ آج تو ان کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ آج تو وہ اپنے متبعین کی کوئی امداد نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کو اس ہولناک صورت حال سے بچا سکتے ہیں۔

(آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22)

” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے ۔ “

یہ منظر بالکل آنکھوں کے سامنے ۔ گو میدان حشر برپا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکوں سے یہ باز پرس ہو رہی ہے اور ان کے لئے یہ باز پرس نہایت ہی المناک ہے ۔ ” وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں ؟ “

یہ ہولناک باز پرس انہیں حواس باختہ کردیتی ہے ۔ اب ان کی فطرت پر جو پردے پڑگئے تھے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں ۔ ان کی فطرت اور ان کی یادداشت سے وہ عارضی حالات محو ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ان حالات کی بنیاد فطرت پر تھی ہی نہیں یہ غیر فطری اور محض سراب کی طرح عارضی حالات تھے ۔ ان کا شعور اب یہ بتاتا ہے کہ وہ کس طرح شریک ٹھہر سکتے ہیں ۔ وہ کہیں گے کہ نہ تو شرکاء موجود تھے اور نہ ہی ہم نے کسی کو شریک بنایا ۔ اب یہ منظر ان کے لئے ایک نئے فتنے کا سبب بنے گا ۔ اس حقیقی دربار میں اب خبیث اور بےاصل افکار ان کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں جس طرح بھٹی میں تپ کر چیزوں سے غلط عناصر جھاگ کی شکل میں خارج ہوجاتے ہیں ۔

(آیت) ” ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23)

” تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ “ وہ حقیقت سامنے آگئی جس کی وجہ سے فتنہ چھٹ گیا یا اس کی روشنی میں فتنہ واضح ہوگیا ۔ ان لوگوں نے اپنے ماضی سے مکمل طور پر کٹ کر اللہ وحدہ کی ربوبیت کا اقرار کرلیا لیکن انہوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان کے لئے اقرار مفید نہ تھا ۔ اس اقرار باطل سے علیحدگی ان کے لئے مفید نہ رہے گی ۔ بلکہ یہ ان کے لئے ایک مصیبت ہوگی اور ان کا یہ اقرار ان کے لئے اب موجب نجات نہ ہوگا ۔ وقت جا چکا ہوگا ۔ آج تو جزائے اعمال کا دن ہے ۔ آج تو آخری فیصلوں کا دن ہے ۔ یہ ریمانڈ کا دن نہ ہوگا ۔

ان کی اس حالت پر اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جب شرک کا ارتکاب کیا اور ان لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اپنے نفوس کے ساتھ جھوٹ اور فریب کا ارتکاب کیا اس لئے کہ اللہ کے ساتھ کسی شریک کا تو دراصل کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ نہ ان شرکاء کی کوئی حقیقت تھی ۔ آج ان سے وہ افتراء غائب ہے ۔ انہوں نے حق کا اعتراف اس وقت کیا جب ان کا جھوٹا طلسم غائب ہوگیا۔

(آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) ۔

” دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ناپید ہوگئے ۔ “ انہوں نے اپنے اوپر جھوٹ بولا ہے ۔ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اسی وقت اپنے اوپر جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو فریب میں ڈال دیا ۔ اللہ پر افترا باندھا اور اب ان کے تمام معبود ناپید اور گمشدہ ہیں اور اب تو حشر اور حساب کا دن ہے ۔

میرے خیال میں اس آیت کی یہی اطمینان بخش تفسیر ہے ‘ کیونکہ منظر قیامت کا ہے اور وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور ذات باری کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے اس لئے کہ قیامت کے دن ان کا جھوٹ ان کے خلاف ہوگا اس مفہوم میں ۔ کیونکہ قیامت کے دن وہ اللہ پر جھوٹ نہ باندھ سکیں گے اور نہ ارادۃ جھوٹی قسم اٹھا سکیں گے ۔ جن لوگوں نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ عمدا جھوٹ بولیں گے تو وہ اس لئے درست نہیں ہے کہ لایکتمون اللہ حدیثا کے بموجب وہ قیامت میں اللہ سے تو کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔ بلکہ قیامت کے اس ہولناک منظر میں ان کی فطرت پاک وصاف ہوجائے گی اور اس سے شرک کی آلائشیں دور ہوجائیں گی ۔ لیکن اللہ ان پر تعجب فرماتا ہے کہ دیکھو انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی کس جھوٹ میں بسر کی اور آج آخرت میں ان کے پردہ خیال میں اس جھوٹ کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ (واللہ اعلم بالمراد) بہرحال یہ بھی احتمالات میں سے ایک احتمال ہے ۔

اگلی آیات میں مشرکین کا ایک دوسرا گروہ اسکرین پر آتا ہے اور اب ان کے کیس کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ یہ مناظر قیامت میں سے ایک دوسرا منظر ہے ۔ یہ لوگ قرآن کریم کو سنتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوت مدرکہ کو معطل کردیا ہے ‘ ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ تحریک اسلامی کے معاند ہیں اور اپنے آپ کو بہت ہی بڑی شے سمجھتے ہیں ۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے مجادلہ کر رہے ہیں۔ چناچہ اس صورت میں وہ آنکھیں بند کرنے اور نفرت کرنے کی وجہ سے اس قرآن کریم پر یہ تبصرہ کرتے ہیں ” یہ تو ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ “ اور پھر وہ دوسروں کو بھی اس حقیقت کو سننے اور قبول کرنے سے منع کرتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ ان کے حالات کی یہ تصویر صفحہ کی ایک طرف ہے اور اس صفحے کے دوسری جانب ان کی نہایت ہی مکروہ اور دردناک حالت کو منقش کیا گیا ہے ۔ وہ آگ کے کنارے کھڑے ہیں ‘ گرفتار ہیں اور انہیں اس خوفناک انجام کے دھانے پر کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ وہ نہایت ہی ذلت میں چیخ و پکار کرتے ہیں اور نہایت ہی حسرت آمیز انداز میں یہ تمنا کرتے ہیں کہ اگر انہیں دنیا کی طرف لوٹایا جائے تو وہ اپنے موقف میں تبدیلی کرلیں گے جس کی وجہ سے ان کو یہ روز بد دیکھنا پڑا ۔ چناچہ نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں ان کی اس تمنا اور خواہش کو رد کیا جاتا ہے ۔