undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 20۔

قرآن کریم میں اس بات کا ذکر بار بار آتا ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاری ‘ قرآن کریم کو بعینہ اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ رسول برحق ہیں اور یہ قرآن کریم ان پر اللہ کی جانب سے نازل ہو رہا ہے ۔ یہ حقیقت اہل کتاب کے ساتھ کلام کرتے ہوئے بھی بیان کی گئی ہے اور مشرکین عرب کے مقابلے میں بھی یہ دلیل دی گئی ۔ اہل کتاب بالمعوم مدینہ میں تحریک اسلامی کے خلاف دشمنی ‘ عناد اور مقابلے کا موقف اختیار کئے ہوئے تھے اور اہل شرک ہر جگہ پر تھے ۔ یہ حقیقت اس لئے لائی گئی کہ مشرکین عرب مانتے تھے کہ اہل کتاب ان کے مقابلے میں زیادہ اہل علم ہیں اور وہ کتب سماویہ اور وحی کے مزاج سے زیادہ باخبر ہیں ۔ لہذا یہ بات لائی گئی کہ اہل کتاب قرآن کریم کو اچھی طرح بغیر کسی اشتباہ کے پہچانتے ہیں اور یہ کہ حضور ﷺ پر بھی اسی رب کی وحی آرہی ہے جس نے پہلے رسولوں پر وحی بھیجی تھی ۔

جس طرح ہم نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت مکی ہے ‘ اور اس میں اس انداز سے اہل کتاب کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں خطاب مشرکین مکہ سے تھا کہ جس کتاب کا تم انکار کر رہے ہو اہل کتاب اسے اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں اور اگر اہل کتاب کی ایک بڑی اکثریت ایمان نہیں لائی تو اس نے درحقیقت اپنے آپ کو ایک بہت ہی بڑے خسارے میں ڈال لیا ہے ۔ اس معاملے میں علم کے باوجود وہ مشرکین کے ہم پلہ ہوگئے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالتے ہوئے ایمان کی دولت سے محروم کرلیا ہے ۔ اس آیت سے قبل اور بعد کی بات بہرحال مشرکین مکی کی بابت ہے ۔ اس لئے جس طرح ہم نے اس سورة کے تعارف کے وقت بتایا ‘ ہم ترجیح اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ آیات بھی مکی ہیں ۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ‘ (آیت) ” الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمُ ۔ (6 : 20) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں آتا ۔ “ کا حوالہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ یہ کلام منزل من اللہ اور سچا ہے یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں اور ان پر بذریعہ وحی یہ قرآن نازل ہو رہا ہے ۔ یہ تفسیر بھی بہرحال اس آیت کے مدلول اور مفہوم میں داخل ہے لیکن تاریخی واقعات کی روشنی میں اور اہل کتاب کے رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ‘ جو انہوں نے دین اسلام کے مقابلے میں اختیار کیا ‘ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے مفہوم کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔ اللہ کا منشا یہ تھا کہ جماعت مسلمہ کے ذہن میں یہ پہلو بھی آجائے تاکہ وہ آئندہ کے ادوار میں اہل کتاب کے حوالے سے اپنا اپنا رویہ متعین کرلے اور یہ جان لے کہ ان کا رویہ اسلام کی بابت کیا ہوگا ۔

اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی اس سے بھی وہ واقف تھے ۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر تھے کہ اس کتاب کے اندر پائے جانے والے نظریات کو جو قوم سینے سے لگاتی ہے اس کے اندر پھیلاؤ کی کس قدر عظیم قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کتاب کے نتیجے میں کسی قوم کے اندر جو اخلاقی قوت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے اثرات کس قدر دور رس ہوتے ہیں ۔ یہ کتاب جو نظام حیات پیش کرتی ہے وہ کس قدر مستحکم نظام ہے ۔ اہل کتاب اس کتاب اور اس کے ماننے والوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ اس کتاب میں ان کے لئے نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کسی دوسرے دین کے لئے کوئی گنجائش ہے ۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اس کتاب میں کس قدر عظیم سچائی ہے اور وہ خود کس عظیم باطل کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اس نظام جاہلیت سے بھی واقف تھے جس تک وہ آپہنچے اور جس تک ان کی قوم ‘ ان کے اوضاع واطوار اور ان کے اخلاق اور ان کا اجتماعی نظم پہنچ گئے ہیں ۔ اب صورت یہ ہوگئی کہ یہ دین برحق ان کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں کرسکتا ۔ نہ ان کے درمیان بقائے باہمی ممکن ہے ۔ اس لئے جو معرکہ درپیش ہے وہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس کرہ ارض کے اوپر سے جاہلیت ختم ہوجاتی ‘ جب تک ہر جگہ یہ دین غالب نہیں ہوجاتا اور پوری دنیا کا دین خدا پرستی پر قائم نہیں ہوجاتا اور اس کرہ ارض پر اللہ کی بادشاہت قائم نہیں ہوجاتی ۔ جب تک اللہ کے حقوق سلطنت اور حقوق اقتدار اعلی پر دست درازی کرنے والوں کو اس کرہ ارض کے اوپر سے بھگا نہیں دیا جاتا اس وقت تک دونوں گروہوں کے درمیان مصالحت نہیں ہو سکتی اس لئے کہ صرف اسی طریقے سے خدا کی بادشاہ قائم ہو سکتی ہے ۔

اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دین میں یہ حقیقت موجود ہے اور اس حقیقت کو وہ بعینہ اس طرح بغیر کسی اشتباہ کے جانتے تھے جس طرح وہ اپنے بچوں کو جانتے تھے ۔ اہل کتاب نسلا بعد نسل اس دین کا مطالعہ کرتے چلے آئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس دین کے اندر قوت اور شوکت کے سرچشمے پنہاں ہیں اور یہ کہ یہ دین نفس انسانی کے اندر کن کن راہوں پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ۔ اسی لئے وہ ہر وقت ان تحقیقات میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اس دین کی ان قوتوں کے اثرات کو کس طرح زائل کردیں ۔ کس طرح وہ اہل اسلام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرسکتے ہیں ؟ کس طرح وہ دین اسلام کے نصوص میں لفظی اور معنوی تحریف کرسکتے ہیں ؟ کس طرح وہ اس دین کو باطل اور جاہلیت کے مقابلے میں تحریک نفاذ اسلام اور تحریک قیام حکومت الٰہیہ کے مقام سے گرا کر ایک مجرد ثقافتی اور علمی تحریک میں بدل سکتے ہیں اور اس کی زندہ نصوص کو محض الہیاتی نظریاتی مباحث میں بدل کر انہیں بےجان کرسکتے ہیں ۔ چناچہ انکی یہی سعی رہی کہ اس دین کو محض لاہوتی ‘ فقہی اور فرقہ وارانہ اختلافات کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا جائے ۔ وہ دین اسلام کے مطالب اور مفہومات کو ایسے تصورات اور ایسی اشکال میں ڈھالتے ہیں جن کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اس دین کے لئے مہلک ہیں ۔ لیکن ان سازشوں کے باوجود وہ اہل اسلام کو یہ باور کراتے ہیں کہ تمہارا عقیدہ محفوظ ہے اور قابل احترام ہے ۔ اس طرح جو خلا وہ پیدا کرتے ہیں اس کی جگہ وہ نئے تصورات ‘ نئے طور طریقے اور نئی ترجیحات سامنے لاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلامی سوچ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں ۔

اہل کتاب دین اسلام کا بہت ہی گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور نہایت ہی سنجیدگی اور گہرائی سے اسلام کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے وہ کسی حقیقت کی تلاش میں نہیں ہیں ۔ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں حقیقت کی تلاش ہے یا وہ اس دین کے ساتھ کوئی انصاف کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ ایسا سمجھتے ہیں جب مستشرقین میں سے کوئی اسلام کے بعض پہلوؤں کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کرے ۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ سچائی کی تلاش میں ہیں یا یہ کہ وہ دین اسلام پر کوئی منصفانہ تبصرہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ان تحقیقات سے اس امر کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کس مقام سے وہ دین اسلام پر حملہ آور ہوں ۔ یہ لوگ دین اسلام کے ان تمام سرچشموں کو بند کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے انسانی فطرت کو سیرابی حاصل ہو سکتی ہے یا فطرت انسانی ان پہلوؤں سے متاثر ہو سکتی ہے ۔ وہ ایسے تمام سرچشموں کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس دین کی قوتوں کے راز معلوم کرتے ہیں تاکہ وہ ان قوتوں کا اچھی طرح دفاع کرسکیں ۔ یہ لوگ یہ جاننا چاہتے کہ یہ دین اپنے آپ کو انسانی نفسیات کے اندر کس طرح نشوونما دیتا ہے تاکہ یہ لوگ اہل اسلام کو غافل پا کر کچھ اپنے تصورات اس کے اندر داخل کردیں اور لوگوں کے نفوس کے اندر جو بھی خلا باقی ہو اسے وہ دین کے ساتھ متضاد تصورات کے ذریعے بھر دیں ۔

چناچہ ان مقاصد کے حصول کے لئے یہ لوگ دین اسلام کو اسی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بچوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ ہمیں ان حقائق کے بارے میں علم ہونا چاہئے ۔ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں بھی پورا پورا علم ہونا چاہئے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں اسی طرح پہچان ہو جس طرح ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں پہچان ہوتی ہے ۔

گزشتہ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ کی عملی صورت حال اس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے پہلے سے بتا دیا تھا ۔

(آیت) ” الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمُ ۔ (6 : 20) وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کے پہچانتے ہیں ۔ “ میں کوئی اشتباہ نہیں آتا ۔ “ ماضی قریب کے تاریخی دور میں یہ صورت حال بہت ہی اچھی طرح واضح ہوگئی ہے ۔ آج اسلام کے بارے میں جو بحثیں ہو رہی ہیں وہ اس قدر وسیع ہیں کہ ہر ہفتے کی تحریروں کو جمع کرکے ایک کتاب شائع کی جاسکتی ہے ۔ یہ صورت تمام غیر ملکی زبانوں کی ہے ۔ ان مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب اس دین کی ہر چھوٹی بڑی بات سے واقف ہیں ۔ وہ اس کے مزاج اور اس کی تاریخ سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ انہیں اس دین کی قوت کے سرچشمے بھی معلوم ہیں اور اس کی قوت مدافعت سے بھی وہ پوری طرح باخبر ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس دین کے بگاڑنے کے طریقے کیا ہیں ‘ لیکن اہل کتاب کی اکثریت اپنی اس نیت کو چھپائے رکھتی ہے ۔ وہ اپنے مقاصد کو اس لئے خفیہ رکھتے ہیں کہ اگر دین اسلام پر براہ راست حملہ کیا جائے تو لوگ اس کی مدافعت کے لئے اٹھتے ہیں اور طرفداری کرتے ہیں ۔ وہ تحریکات جو اس دین پر مسلح حملوں کے دفاع کے لئے برپا کی گئیں ‘ مثلا استعماری قوتوں کے خلاف تو یہ تحریکات ایک دینی فہم اور دینی جذبے کے اوپر قائم تھیں ۔ انہوں نے اپنے وقت میں دین کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیا ‘ لیکن آج دین کے خلاف فکری جنگ شروع ہے اس فکری ونظریاتی جنگ کی مدافعت کے لئے بھی اسلامی تحریکات اٹھتی رہی ہیں اور اہل کتاب کو اس کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے ۔ اس لئے وہ نہایت ہی مذموم طریقے اختیار کرتے ہیں اور وہ یوں کہ وہ پہلے دین اسلام کی کسی قدر تعریف کرتے ہیں اور اسلام کی مدافعت اور حمایت کے جذبات کی جذبات کو سلا دیتے ہیں تاکہ اسلام کی حمایت کا جذبہ بےحس کردیا جائے ‘ اور پڑھنے والے کے دل میں اطمینان پیدا ہوجائے اور اس طرح ایسے مصنفین پیالے میں زہر ڈالتے جائیں اور پڑھنے والا ایک ایک گھونٹ پیتا رہے ۔ اب ایسے لوگوں کی بات کچھ اس طرح کی ہوتی ہے ۔ ” بیشک اسلام ایک عظیم دین ہے لیکن اس کے معانی اور تصورات کو ترقی یافتہ شکل میں جدید تہذیب کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے تاکہ وہ جدید دور کی ضروریات کو پورا کرے ۔ دور جدید میں معاشروں کے اندر جو جدت اور ترقی کا عمل جاری ہے ‘ مناسب نہیں ہے کہ یہ دین اس کی راہ میں رکاوٹ بنے بلکہ مناسب یہ ہے کہ یہ دین جدید اخلاقی قدریں اپنا لے اور جدید نظامہائے حکومت اور اجتماعی امور کو نہ چھیڑے ۔ اس طرح کہ جو چاہے اسلامی عقائد کو اپنے دلوں میں بٹھائے رکھے لیکن انسان کی عملی زندگی میں جدید نظریات اور تہذیب مغرب کے رنگ ڈھنگ اس کے دائرے سے باہر نکل آئیں ۔ وہ اپنے اجتماعی معاملات بھی اس ان لوگوں کے حوالے کر دے جو اس کرہ ارض پر الہ اور رب بنے ہوئے ہیں اور خود اپنا دین چلا رہے ہیں ‘ اس طرح اسلام ایک ہمہ گیر دین قرار پائے گا “۔

اس انداز گفتگو کے دوران یہ مصنفین اپنی اقوام کو یہ راز سمجھاتے ہیں کہ دین اسلام کی قوت اور صلابت کا راز کیا ہے ؟ بظاہر یہ تعریف کر رہے ہوتے ہیں لیکن بباطن اپنی اقوام کو تاثر دیتے ہیں کہ یہ دین نہایت ہی خطرناک ہے ۔ یوں تعریف کے لباس میں یہ اپنی اقوام کو اس دین کی قوت کے راز سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ ان انکشافات کے ذریعے تخریبی قوتیں دین کے نازک مقامات پر حملہ آور ہوں اور ان کے وار اور بمباری ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگے اور ان کو اس بارے میں اس قدر علم ومعرفت حاصل ہوتی رہے جس طرح وہ اپنے بچوں کے بارے میں جانتے ہیں ۔

قرآن کریم کے اسرار و رموز اس کے جاننے والوں پر کھلتے ہی رہیں گے ۔ یہ کتاب ہمیشہ جدید اور نئی رہے گی ۔ گزشتہ چودہ سو سال میں یہ ہمیشہ جدید رہی ہے ۔ مسلمان اس کی روشنی میں معرکے لڑتے رہے ہیں اور اپنی تاریخ پر اس کی روشنی میں غور کرتے رہے ہیں ۔ وہ اپنے ماضی اور حال کا جائزہ اس کی روشنی میں لیتے رہے ہیں اور اپنے معاملات کو اللہ کے نور میں دیکھتے رہے ہیں جس کے ذریعے سچائی کے راستے واضح ہوجاتے ہیں ۔