undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” 19۔

” ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔

بات کا جگہ جگہ رکنا ‘ اور پھر موثر آغاز اور ایک ہی آیت میں یہ زیروبم ایک عجیب انداز کلام ہے ۔ ایک لفظ میں ایک موقف بیان ہوجاتا ہے ‘ ایک ایک لفظ ایک منظر کو پیش کرتا ہے جس سے شبہات وخلجانات اور ان کی نوعیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔

بذات خود حضور اکرم ﷺ کو خطاب کیا جاتا ہے اور احکام دیئے جاتے ہیں ۔ پھر حضور ﷺ ان احکامات کے تحت ان مشرکین سے مخاطب ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اور لوگوں کو اپنا سرپرست بنا رکھا ہے ۔ وہ اللہ کے مخصوص حقوق میں بعض حقوق غیر اللہ کو دیتے ہیں اور ان سرپرستوں کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ حضور ﷺ کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ ان کو ان کی اس حالت پر برقرار رکھیں تاکہ وہ اس کے بدلے حضور ﷺ کے دین میں شریک ہوجائیں ۔ ان کے خیال میں ایسا ممکن تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور شرک ایک ہی دل میں جمع ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سوچ دل میں بٹھالی تھی ۔ آج کے دور جدید میں بھی لوگوں کے دلوں میں اس قسم کی سوچ بیٹھی ہوئی ہے ۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حوالے سے مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے معاملات میں غیر اللہ سے ہدایات بھی لے سکتے ہیں ۔ وہ غیر اللہ کے مطیع فرمان بھی ہوسکتے ہیں اور غیر اللہ سے غیبی امداد بھی لے سکتے ہیں اور غیر اللہ کو ولی اور سرپرسب بھی بنا سکتے ہیں ۔

حضور اب یہاں مشرکیں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ یہاں آکر آپ ﷺ کے دین اور ان کے ادیان کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں ۔ آپ کی توحید اور ان کا شرک اب اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ آپ ﷺ کا اسلام اور ان کی جاہلیت ایک جگہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔ اب آپ ان کے ساتھ فیصلہ کردیتے ہیں : ” اب میرے اور تمہارے درمیان اتحاد واتصال ممکن نہیں ہے ۔ اتحاد صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تم لوگ اپنا دین چھوڑ کر میرے دین میں شامل ہوجاؤ ورنہ ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ اتحاد ہو سکے کیونکہ آغاز ہی سے دونوں کی رہیں جدا ہوچکی ہیں ۔ “

حضور ﷺ ان کے ساتھ یوں ہمکلام ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کون سی سند اور شہادت ہے ؟ ذرا لائیں میدان میں کوئی شہادت اور کوئی ثبوت اپنے موقف پر ۔

(آیت) ” قل ای شیء اکبر شھادۃ “۔ (6 : 19) ان سے پوچھو کس چیر کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ۔ “ اس پوری کائنات میں سب سے بڑی شہادت کیا ہے ؟ وہ کون سی شہادت ہے جسے درجہ تصدیق حاصل ہے ؟ مقدمے میں کون سا ثبوت فائنل ہے جس کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت نہ ہو ؟

یہ نہایت ہی عمومی سوال ہے ۔ شیء کے لفظ سے سوال کیا گیا ہے یعنی پوری کائنات کی کوئی شے ثبوت میں لاؤ ۔ جو سب سے بڑی شہادت ہو۔

حضور ﷺ کو جس طرح حکم دیا جاتا ہے کہ ان سے پوچھو ‘ اسی طرح آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو جواب بھی دے دو ۔ اس لئے کہ خود مخالفین اس بات کے معترف تھے کہ دراصل جواب وہی ہے جو حضور ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جواب دے دیں ۔ (آیت) ” قل اللہ (6 : 19) ” کہو اللہ “ ہاں ! بیشک سب سے بڑا گواہ ہے ۔ وہی تو ہے جو اس سچائی کو بیان کر رہا ہے ۔ وہی تو ہے جو سب سے بھلے فیصلے کرتا ہے اور اس کی گواہی کے بعد کوئی گواہی نہیں ہے ۔ اس کی بات کے بعد کسی بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جب اللہ بات کر دے تو تمام باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور معاملے کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔

جب اس حقیقت کا اعلان کردیا گیا کہ اللہ شہادت سب سے برتر شہادت ہے تو اب اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان بس اللہ گواہ ہے اور اللہ ہی اس مسئلے کا فیصلہ کرے گا ۔

(آیت) ” شھید بینی وبینکم “۔ (6 : 19) ” میرے اور تمہارے درمیان وہ گواہ ہے ۔ “ مطلب یہ ہوا (آیت) ” ھو شھید) ۔ میرے اور تمہارے درمیان وہ گواہ ہے ۔ اس مقام پر لفظ اللہ کے بعد وقف مناسب ہے ۔ کیونکہ یہاں مختصر مختصر فقروں میں بات ہو رہی ہے ۔ یعنی لفظ اللہ کے بعد وقف وصل کے مقابلے میں زیادہ مناسب ہے ۔ اگر وصل ہو تو اللہ (آیت) ” شھید بینی وبینکم “۔ (6 : 19) ہوگا ۔

جب یہ اصول متعین ہوگیا کہ اس معاملے میں فیصلہ صرف اللہ کا فیصلہ ہے تو یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی شہادت قرآن کی شکل میں آگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن کریم محض اس لئے نازل کیا ہے کہ میں تمہیں اور ان تمام دوسرے لوگوں کو ڈراؤں جن تک وہ پہنچے ۔ آپ کی زندگی میں یا آپ کی وفات کے بعد ۔ لہذا قرآن کریم ان لوگوں پر بھی حجت ہوگا جن تک حضور ﷺ کی موجودگی میں پہنچایا آپ ﷺ کے بعد جن تک پہنچا ۔ اس لئے کہ انسانی سوچ کے اس اساسی مسئلے میں قرآن ہی فیصلہ کن شہادت ہے اور اسی سوچ پر دنیا اور آخرت کی نجات کا مدار ہے اس پر انسانی وجود قائم ہے ۔

(آیت) ” واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (6 : 19) ” اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو متنبہ کردوں ۔ “ ہر وہ شخص جس تک قرآن کی تعلیمات پہنچ جائیں ‘ کسی ایسی زبان میں جسے وہ سمجھتا ہو اور اس سے وہ دعوت قرآن اخذ کرسکتا ہو تو اس پر حجت قائم ہوگئی ۔ حضور ﷺ کا فریضہ انذار ادا ہوگیا ‘ اور اگر وہ نافرمانی کرے اور تکذیب کرے تو اس کے لئے عذاب لازم ہوگیا ۔ (ہاں جو شخص عربی زبان نہیں جانتا اور اس کی زبان میں قرآن کی دعوت بھی موجود نہیں ہے تو اس پر حجت قائم نہ ہوگی اور اس بات کا مؤاخذہ اہل اسلام سے ہوگا کیونکہ انہوں نے اس زبان میں قرآن کے مفہوم کو منتقل نہ کیا جسے وہ سمجھتا ہے ۔ اگر اس کی زبان میں قرآن کا ترجمہ کردیا گیا ہو تو اس پر حجت تمام ہوگی) ۔

جب یہ اعلان کردیا گیا کہ اللہ کی شہادت قرآن کریم کے اندر درج ہے تو اس شہادت کا مضمون بھی بتا دیا گیا ۔ اور یہ چیلنج کی صورت میں اور سخت تنبیہ کے انداز میں بتادیا گیا وہ لوگ جو شہادت دیتے تھے اس پر ان کی سرزنش کی گئی کہ کیا تم اللہ کے مقابلے میں خود اپنی شہادت پیش کرتے ہو ؟ بتا دیا گیا کہ ہم تمہاری اس شہادت کو مسترد کرتے ہیں ۔ آپ اس کے مخالف موقف کا اعلان فرما دیتے ہیں اور اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ صرف اللہ ہی الہ ہے اور اس معاملے میں ہمارے اور تمہارے مکمل جدائی ہے ‘ ہماری راہیں مختلف ہیں ۔ نہایت ہی تاکیدی اور فیصلہ کن الفاظ میں اپنی براءت کا اظہار کردیا جاتا ہے ۔

(آیت) ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19)

” کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “ قرآن کی یہ آیات ان آیات کے یہ مقطعے اور ان کی یہ ضربات انسانی دل کو اس قدر جھنجوڑتی ہیں کہ الفاظ میں ان کے اثرات کو بیان کرنا ہی محال ہے اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اپنے الفاظ کے ذریعے ان کے اثرات اور ان کی خوبصورتی کو محدود کر دوں کیونکہ کوئی تبصرہ ان کے حسن کو بیان نہیں کرسکتا ۔

آیات کے اس مجموعے یا اس لہر میں جس مسئلے کو لیا گیا ہے اس پر قدرے ضروری ہے ۔ یہ مسئلہ سرپرستی ‘ توحید اور مشرکین کے ساتھ کے ساتھ مکمل جدائی کا مسئلہ ہے ۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کا اساسی مسئلہ ہے اور اس دین میں یہ ایک عظیم اور اہم حقیقت ہے ۔ آج کے اسلامی گروہ اور اسلامی جماعت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے پر غور کرے ‘ اس سبق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذراطویل وقفہ کرے اور تامل و تدبر کرے ۔

اس وقت تحریک اسلامی کا مقابلہ پورے کرہ ارض پر چھائے ہوئے نظام جاہلیت کے ساتھ ہے ۔ جس طرح نزول قرآن کے وقت برپا ہونے والی تحریک اسلامی کا مقابلہ اس وقت کی جاہلیت سے تھا ۔ اس لئے آج کی تحریک اسلامی کو چاہئے کہ وہ اپنا موقف نزول قرآن کے وقت کی تحریک اسلامی کے موقف کی روشنی میں متعین کرے تاکہ وہ اس روشنی کی مدد سے اپنی راہ کو اچھی طرح دیکھ سکے ۔ چناچہ تحریک اسلامی کی یہ ضرورت ہے کہ وہ اس آیات پر خوب اچھی طرح طویل غور وفکر کرے اور پہلی تحریک اسلامی کے نقوش پا سے راہنمائی حاصل کرے ۔

زمانہ لوٹ کر اسی مقام پر آگیا ہے جہاں پہلی تحریک اسلامی کے وقت تھا ۔ انسانیت اسی مقام پر آگئی ہے جس پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی اور رسول اللہ ﷺ زندہ و موجود تھے ۔ ان پر اسلام نازل ہوا تھا اور اس کی اساس اس بات کی شہادت پر تھی کہ اللہ ایک ہے ‘ اور اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے ۔ یہ شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ‘ اسی طرح ہم نے ادا کرنی ہے جس طرح اسے حضرت ربعی ابن عامر نے ادا کیا تھا ‘ جب وہ مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کے ایلچی کے طور پر ایرانیوں کے کمانڈر انچیف رستم کے ہاں گئے تھے اور جنہوں نے حضرت ربعی سے پوچھا تھا ” تم نے کیوں ہم لوگوں پر لشکر کش کی کی ہے ؟ “ ان کا جواب یہ تھا ” اللہ نے ہمیں اس لئے اٹھایا ہے کہ وہ اپنے جن بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنا چاہتا ہے انہیں اس غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل کر دے ۔ پھر انہیں دنیا اور آخرت کی وسعتوں کے اندر لے جائے اور دوسرے ادیان کے مظالم سے نکال کر اسلام کے نظام عدل میں داخل کر دے ۔ “ حضرت ربعی ؓ نے یہ شہادت یہ جانتے ہوئے دی کہ رستم اور اس کے ساتھی کسی کی پوجا یہ جانتے ہوئے نہ کرتے تھے کہ وہ الٰہ ہے اور ان کا خالق ہے یا اس کائنات کا خالق ہے اور نہ یہ لوگ کسری کے سامنے معروف مراسم عبودت بجا لاتے تھے ۔ بلکہ وہ قانون اور شریعت کسری سے اخذ کرتے تھے ۔ اس طرح وہ کسری کی بندگی کرتے تھے جو اسلام کے منافی تھی ۔ ربعی ؓ نے ان کو بتایا کہ وہ لوگوں کو انسانی نظاموں سے نکال کر اللہ کے نظام حاکمیت میں داخل کرنا چاہتے ہیں جس میں اطاعت اور بندگی صرف اللہ وحدہ کے لئے مخصوص ہے اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظام زندگی ہے جس کے اندر حاکمیت ‘ اطاعت اور بندگی صرف وحدہ کے لئے ہے ۔

آج کل زمانہ اس مقام پر لوٹ آیا ہے جس پر کبھی اسلام نے لوگوں کے سامنے (لا الہ الا اللہ) کی شہادت پیش کی تھی ۔ آج انسانیت لوٹ کر بندوں کی غلامی میں داخل ہوگئی ہے ‘ وہ دوسرے ادیان کے مظالم سہ رہی ہے اور اس عظیم شہادت سے اس نے روگردانی اختیار کرلی ہے ۔ اگرچہ انسانیت کی آبادی کا ایک حصہ مسجدوں سے اذانوں کے ذریعے سے روز وشب (لا الہ الا اللہ) کی شہادت نشر کر رہا ہے ۔ لیکن اسے معلوم نہیں ہے کہ اس شہادت اور کلمہ شہادت کا مدلول اور مفہوم کیا ہے ؟ نہ یہ شہادت دیتے وقت یہ لوگ اس مفہوم کو ذہن میں لاتے ہیں ۔ نہ یہ لوگ اس حاکمیت کا انکار کرتے ہیں جو کچھ لوگوں نے اپنے لئے مخصوص کرلی ہے حالانکہ ان کا یہ موقف اعلان خدائی کے برابر ہے چاہے وہ اپنے اس موقف کا اعلان کریں یا نہ کریں ۔ مثلا دنیا میں مروج مجالس قانون ساز کا جو حال ہے یا کچھ اقوام کا حال ہے اس معاملے میں افراد ومجالس کا حکم ایک ہی ہے ۔ افراد اور اقوام کی حیثیت ایک ہی ہے ۔ یہ افراد اور یہ مجالس اور یہ اقوام چونکہ الٰہ نہیں ہیں اس لئے انہیں انسانون کے لئے قانون سازی کا کوئی حق نہیں ہے الا یہ کہ انسانیت مرتد ہو کر (لا الہ الا اللہ) سے انکار کر دے اور وہ یہ اختیارات اللہ کے سوا کسی اور کو دے دے تو اس صورت میں وہ عقیدہ توحید کی منکر ہوگی اور صرف اللہ اس کا والی اور سرپرست نہ ہوگا ۔

اس وقت صورت حالات یہ ہے کہ پوری انسانیت ‘ جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو رات اور دن مساجد سے اذانوں کے ذریعے سے (لا الہ الا اللہ) کا مفہوم نہ سمجھتے ہوئے اس کا اعلان کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قیامت کے دن سب سے بڑی گناہگار اور زیادہ عذاب کے مستحق ہوں گے ‘ اس لئے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد لوٹ کر انسانوں کی بندگی اختیار کرلی ہے ۔ اس کے بعد کہ ان پر یہ سچائی اتری اور ان تک پہنچ گئی اور اس کے بعد کہ وہ دین اسلام میں داخل تھے ‘ لہذا اس دور میں تحریک اسلامی اس بات کی زیادہ محتاج ہے کہ وہ ان آیات پر اچھی طرح غور کرے :

(آیت) ” قُلْ أَغَیْْرَ اللّہِ أَتَّخِذُ وَلِیّاً فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلاَ یُطْعَمُ قُلْ إِنِّیَ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکَیْنَ (14)

” کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں (مجھے کہا گیا) تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ “

چاہے اس کا جو مفہوم بھی لیا جائے ‘ اس کا مطلب ہوگا اس کے سامنے عاجزی کرنا ‘ اس کی اطاعت کرنا ‘ اس سے نصرت طلب کرنا اور اس سے استعانت طلب کرنا ۔ یہ سب امور اسلام کے ساتھ متضاد ہیں اس لئے کہ یہ امور شرکیہ ہیں اور اسلام آیا ہی اس لئے ہے کہ لوگوں کو ان شرکیہ امور سے نکالا جائے ۔ تحریک اسلامی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ولایت کا اظہار سب سے پہلے جس بات میں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اپنے نظریہ یا اپنی زندگی کے نظام میں غیر اللہ کی حاکمیت کو قبول کرلے ۔ یہ وہ بات ہے جس میں میں اس وقت کرہ ارض پر بننے والی پوری انسانیت مبتلا بلا استثناء ۔ اور تاکہ تحریک اسلامی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ اس کے سامنے جو ہدف ہے وہ یہ ہے کہ اس نے عوام الناس کو لوگوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی بندگی میں داخل کرنا ہے اور یہ کہ اسے اسی قسم کی جاہلیت سے واسطہ درپیش ہے جس سے حضور اکرم ﷺ اور پہلی تحریک اسلامی کو سابقہ درپیش تھا جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں ۔

نیز تحریک اسلامی کو اس شراب ایمانی کی بھی اشد ضرورت ہے جو یہ آیات قلب مومن میں انڈیل رہی ہیں جبکہ دل مومن کسی جاہلیت کے سامنے صف آرا ہو :

(آیت) ” قُلْ إِنِّیَ أَخَافُ إِنْ عَصَیْْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (15) مَّن یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ (16) وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یَمْسَسْکَ بِخَیْْرٍ فَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدُیْرٌ(17) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ (18)

” کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔

جو تحریک بھی جاہلیت اور اس کی طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کر رہی ہو ‘ جو جاہلیت کے جبر وقہر اور عناد وسرکشی کا مقابلہ کر رہی ہو اور جو جاہلیت کی سازشوں اور کینہ پروریوں کے سامنے صف آراہو اور اس کے پھیلائے ہوئے فساد اور فسق وفجور کا دفعیہ چاہتی ہو اس کے لئے اس تمام شرک کے مقابلے کے لئے ان حقائق کا ادراک ضروری ہے اور اس تحریک کے اندر یہ جذبات اور یہ شعور موجود ہونا چاہئے ، ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ غیر اللہ کو اپنا سرپرست بنا لے اور یہ نہ ہو کہ اس نافرمانی کے نتیجے میں وہ عذاب اخروی کی سزاوار ہوجائے ۔ تحریک اسلامی کو یہ یقین کرلینا چاہئے کہ نفع ونقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ اللہ کو اپنے بندوں پر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے ۔ اس کے فیصلے کے بعد کوئی فیصلہ نہیں ہے اور نہ اس کے حکم اور فیصلے کو کوئی رد کرسکتا ہے ۔ جس دل میں یہ یقین اور یہ شعور نہ ہو وہ احیائے اسلام کی مشکلات کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتا جبکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ جاہلیت کے قائم نظام کے مقابلے میں ہو رہی ہو اس لئے کہ احیائے اسلام کی تحریک کو جاہلیت کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتی ۔ اس کی راہ میں ہمیشہ پہاڑ جیسی مشکلات حائل کی جاتی رہی ہیں ۔

یہ یقین کرلینے کے بعد کہ آج کرہ ارض پر تحریک اسلامی کا نصب العین کس قدر اہم اور مشکل ہے ‘ اپنے نظریے اور عقیدے کے صحیح ادراک کے بعد اور اس کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کہ اللہ سبحانہ وحدہ لا شریک ہے اور اس توحید کے کئی پہلو ہیں اور ان تمام امور کے ساتھ ساتھ یہ شعور کہ اس راہ میں کیا کیا مشکلات ہیں ۔ آج کی تحریک اسلامی کو اللہ کی جانب سے شہادت اور جاہلیت کے ساتھ مکمل بائیکاٹ اور فیصلہ کن علیحدگی کی ضرورت ہے کیونکہ جاہلیت بعینہ اس شرک میں مبتلا ہے جس میں قرون اولی کی جاہلیت مبتلا تھی ۔ اس لئے تحریک اسلامی کو چاہئے کہ وہ ویسا ہی اعلان کردے جس اعلان کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دیا تھا ۔ جس طرح رسول ﷺ نے اس وقت کی جاہلیت کے منہ پر اس کے نظریات مار دیئے تھے آج بھی تحریک کو چاہئے کہ وہ دور جدید کی جاہلیت کے غلط افکار اس کے منہ پر دے مارے اور اللہ رب العالمین کے ان احکام کو نافذ کر دے ۔

(آیت) ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19)

” ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو اللہ ۔۔۔۔۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو ؟ کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔

تحریک اسلامی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس وقت کرہ ارض پر چھائی ہوئی جاہلیت کے مقابلے میں یہ موقف اختیار کرے ۔ اسے چاہئے کہ وہ اس کے مقابلے میں اپنے سچے نظریات کا اعلان ببانگ دہل کرے اور فیصلہ دل دہلا دینے والی رعب دار آواز میں کرے ۔ اس کے بعد نتائج اللہ پر چھوڑ دے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ اسے اپنے بندوں کے معاملات پر پورا پورا کنٹرول ہے ۔ اللہ کے بندے جس میں یہ جابر طاغوتی طاقتیں بھی شامل ہیں ‘ اللہ کے مقابلے میں ایک مکھی جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر ان سے مکھی بھی کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اس سے نہیں چھڑا سکتے ۔ مقابلے میں ایک مکھی جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر ان سے مکھی بھی کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اس سے نہیں چھڑا سکتے ۔ یہ جابر قوتیں اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں نہ یہ قوتیں کسی کو کوئی نفع پہنچا سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ امور کائنات پر پوری طرح غالب ہے لیکن لوگوں کو اللہ کا غلبہ نظر نہیں آتا ۔

تحریک اسلامی کو اچھی طرح یقین کرلینا چاہئے کہ اسے حسب وعدہ الہی تمکن فی الارض اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ جاہلیت کے مقابلے میں اپنی زندگی کی راہیں بالکل الگ نہیں کرلیتی ‘ اس کے ساتھ مکمل طور پر قطع تعلق نہیں کرلیتی ‘ جب تک طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں تحریک اسلامی اعلان حق نہیں کردیتی اور جب تک وہ جاہلیت کے مقابلے میں اس اسلوب پر شہادت حق نہیں دے دیتی جس طرح ان آیات میں اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب تک وہ جاہلیت کو اسی انداز میں چیلنج نہیں کرتی اور اس کے ساتھ مکمل بائیکاٹ نہیں کردیتی اور اس سے اعلان برات نہیں کردیتی ۔

قرآن کریم تاریخ کے ایک مخصوص دور کی اصلاح کے لئے مخصوص نہ تھا ۔ قرآنی ہدایات مکان وزمان کے قیود سے آزاد ہیں ۔ قرآن تو ایک منہاج انقلاب ہے ۔ اور جب بھی کوئی تحریک اس منہاج کو اپنائے گی اسے اسی طرح کام کرنا پڑے گا جس طرح پہلی تحریک اسلامی کو کرنا پڑا ۔ آج ہمیں ویسے ہی حالات درپیش ہیں جیسے نزول قرآن کے وقت درپیش تھے ۔ اسی مقام پر لوٹ کر آگیا ہے جس پر وہ حضور ﷺ کے وقت تھا ۔ جبکہ دنیا میں اسلام متعارف ہو رہا تھا ۔ ہمیں اس دین کی حقیقت پر پورا بھروسہ ہونا چاہئے ۔ ہمیں اللہ کی قدرت اور اس کے غلبے پر پورا پورا بھروسہ ہونا چاہئے ۔ جماعت اسلامی کو اسی کو اسی انداز میں تیاری کرنا چاہئے ۔ اللہ سب سے اچھا محافظ ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔

درس نمبر 58 ایک نظر میں :

” یہ ایک نئی لہر ہے ۔ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں اور خصوصا قرآن کے نظریہ بعث بعد الموت کو جھٹلاتے ہیں ۔ البتہ اس لہر میں نہ تو ان کی ہٹ دھرمی اور عناد کی تصویر کشی کی گئی ہے اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے وہ اسلاف جو قرآن اور بعث بعد الموت کے منکر تھے ‘ ان کا انجام کیا ہوا ؟ بلکہ ان کے سامنے یوم البعث کے کچھ مناظر اور جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اور ان کے آخروی انجام بد کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور یہ انجام بدنہایت متحرک اور زندہ مناظر ومشاہد کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ میدان حشر میں ہیں اور نہایت ہی شرمسار کنندہ سوالات سے دو چار ہیں جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ‘ سرعام رسوا ہورہے ہیں ۔ کوئی جواب بن نہیں پڑتا ۔

(آیت) ” أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22)

” کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جنہیں تم خدا کے ساتھ برابر سمجھتے تھے ؟ “ یہ سوال اس قدر شان جلالت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان پر جزع وفزع کا عالم طاری ہوجاتا ہے ۔ اب وہ نہایت ہی خاکساری اور نہایت ہی بھولے پن سے قسمیں اٹھاتے ہیں اور اللہ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں ۔

(آیت) ” وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23)

” اللہ ہمارے رب کی قسم ہم تو مشرک تھے ہی نہیں۔ “ لیکن جب وہ آگ کے کنارے پہنچتے ہیں ‘ ہتھ کڑیاں لگی ہوئی ‘ حسرت وندامت میں ڈوبے ہوئے ڈرے اور سہمے ہوئے تو یوں گویا ہوتے ہیں۔

(آیت) ” یَا لَیْْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (27)

” اے کاش ! کہ ہم لوٹائے جائیں ‘ اور اللہ کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور مومنین میں شامل ہوجائیں۔ “ اب خود اللہ جل جلالہ ان سے ایک سوال کرتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ شرم وندامت کی وجہ سے پگھلے جا رہے ہیں اور اور خوف وہراس کی وجہ سے ان کی جان نکلی جا رہی ہے ۔

(آیت) ” الیس ھذا بالحق “۔ (6 : 30) ” کیا یہ سچائی نہیں ہے ؟ “ اب وہ نہایت ہی خاکساری اور شرمندگی کے ساتھ جواب دیتے ہیں (آیت) ” بلی وربنا “۔ (6 : 30) ” ہمارے رب کی قسم ‘ ہاں “ ۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ اعتراف ان کے لئے مفید نہیں ہے ۔ حکم ہوتا ہے ۔

(آیت) ” فَذُوقُواْ العَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ (30) ” پس چکھو تم اس عذاب کو اس لئے کہ تم انکار پر مصر تھے ۔ “ وہ ایسے حالات میں اس صورت حالات سے دو چار ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہار چکے ہیں ۔ سب کچھ ہار چکے ہیں ۔ اب انہوں نے اپنے کاندھوں پر اپنے تمام برے اعمال اٹھائے ہوئے ہیں اور آخرت کے بارے میں اپنے برے موقف کی وجہ سے اور اس گھاٹے کے سودے پر سخت نالاں ہیں اور غم سے نڈھال ہوچکے ہیں ۔

ایک منظر کے بعد دوسرا منظر اسکرین پر آتا ہے ۔ ہر منظر ایسا ہے کہ دل دہل جاتا ہے ‘ پورا بدن ٹوٹ رہا ہے پورا وجود ریزہ ریزہ ہوا چاہتا ہے ۔ دل و دماغ کے دریچے اب تو بالکل کھلے ہیں ۔ اب وہ سچائی انہیں صاف صاف نظر آتی ہے ۔ جو حضور ﷺ پیش فرما رہے تھے ۔ لیکن ان مناظر کو دیکھ کر قبولیت حق کی توفیق صرف ان لوگوں کو ہوئی جن کے بارے میں مشیت الٰہی نے فیصلہ کیا کہ وہ حق کو قبول کریں گے ‘ لیکن وہ لوگ جن کو قرآن کریم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں وہ تو اس سچائی کو اس طرح پہچان رہے تھے جس طرح وہ اپنے بچوں کو پہچانتے تھے ‘ لیکن اس کے باوجود اس سچائی کو قبول نہ کرتے تھے ۔