You are reading a tafsir for the group of verses 6:17 to 6:19
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ہمارے سامنے جو عظیم کائنات پھیلی ہوئی ہے اس کے مختلف اجزاء باہم اتنے زیادہ مربوط ہیں کہ یہاں کسی ایک واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی پوری کائنات کی مساعدت ضروری ہے۔ اس بنا پر کوئی بھی انسان کسی واقعہ کو ظہور میں لانے پر قادر نہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان کائنات کے اوپر قابو یافتہ نہیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی چیز بھی اس وقت وقوع میں آتی ہے جب کہ بے شمار عالمی اسباب اس کی پشت پر جمع ہوگئے ہوں۔ اور خدا کے سوا کوئی نہیں جو ان اسباب پر حکمراں ہو۔ کائناتی اسباب کے درمیان آدمی صرف ایک حقیر ارادہ کا مالک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کوئی سکھ ملے یا کسی کو کوئی دکھ پہنچے، دونوں ہی براہ راست خدا کی اجازت کے تحت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کا یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ وہ کسی کو آباد یا برباد کرسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہے کہ خداکے سوا بھي کوئی هے جس سے آدمی ڈرے یا خدا کے سوا بھي کوئی ہے جس سے وہ اپنی امیدیں وابستہ کرے۔

دنیا میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان جو کش مکش جاری ہے اس میں فیصلہ کن چیز صرف خدا کی کتاب ہے۔ خدا کے سوا کسی کو حقائق کا علم نہیں، اور خدا کے سوا کسی کو کسی قسم کا زور حاصل نہیں۔اس لیے خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس جھگڑے میںواحد ثالث ہے۔ اور خدا نے قرآن کی صورت میں یہ ثالث لوگوں کے درمیان رکھ دیا ہے اب آدمی کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ اگر وہ قرآن کی صداقت سے بے خبر ہے تو وہ تحقیق کرکے جانے کہ کیا واقعۃً وہ خدا کی کتاب ہے۔ اور جب وہ جان لے کہ وہ فی الواقع خدا کی کتاب ہے تو اس کو لازماً اس کے فیصلہ پر راضی ہوجانا چاہیے۔ جو آدمی قرآن کے فیصلہ پر راضی نہ ہو وہ یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں رسوائی اور عذاب کی قیمت پر اس کو اس کے فیصلہ پر راضی ہونا پڑے۔

قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ فیصلہ کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو آنے والے وقت سے ہوشیار کردیا جائے۔ رسول نے یہی کام اپنے زمانہ میں کیا اور آپ کی امت کو یہی کام آپ کے بعد قیامت تک انجام دینا ہے۔ قرآن اس بات کی پیشگی اطلاع ہے کہ آخرت کی ابدی دنیا میں لوگوں کا خدا لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ پہنچانے والے اس وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں جب کہ وہ اس کو پوری طرح لوگوں تک پہنچا دیں۔ مگر سننے والے خدا کے یہاں اس وقت سبک دوش ہوں گے جب کہ وہ اس کو مانیں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کریں۔ داعی کی ذمہ داری ’’تبلیغ‘‘ پر ختم ہوتی ہے اور مدعو کی ذمہ داری ’’اطاعت‘‘ پر۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%