انسان کھلے ہوئے حق کا انکار کرتاہے۔ وہ طاقت پاکر دوسروں کو ذلیل کرتاہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا انسان کو اس دنیا میں مطلق اقتدار حاصل ہے۔ کیا یہاں اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کیا خدا کے یہاں تضاد ہے کہ اس نے بقیہ دنیا كو رحمت ومعنویت سے بھر رکھا ہے اور انسان کی دنیا کو ظلم اور بے انصافی سے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو خدا زمین و آسمان کامالک ہے وہی خدا س مخلوق کا مالک بھی ہے جو دن کو متحرک ہوتی ہے اور راتوں کو قرار پکڑتی ہے۔ خدا جس طرح بقیہ کائنات کے لیے سراپا رحمت ہے اسی طرح وہ انسانوں کے لیے بھی سراپا رحمت ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ دنیا میں خدا کی رحمتوں کا ظہور اول دن سے ہے اور انسان کی دنیا میں اس کی رحمتوں کا کامل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔
انسان ارادی مخلوق ہے اور اس سے ارادی عبادت مطلوب ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ کا صحیح استعمال نہ کریں، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنایا جائے۔كیوں کہ انھوںنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا۔ آزمائشی مدت پوری ہونے کے بعد سارے لوگ ایک نئی دنیا میں جمع كيے جائیں گے۔ اس دن خدا اسی طرح دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس روز خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا۔ اس دن وہ لوگ سرفراز ہوں گے جنھوںنے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرکے اپنے کو خدائی اطاعت میں دے دیا۔ اور وہ لوگ گھاٹے میں رہیں گے جنھوں نے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہیں کیا اور خدا کی دنیا میں سرکشی اور ہٹ دھرمی کے طریقے پر چلتے رہے۔
انسان جب بھی سرکشی کرتاہے کسی آسرے پر کرتا ہے۔ مگر جن چیزوں کے آسرے پر انسان سرکشی کرتا ہے ان کی اس کائنات میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہاں ہر چيزبے زور ہے، زور والا صرف ایک خدا ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس لیے فیصلہ کے دن وہی شخص بامراد ہوگا جس نے حقیقی سہارے کو اپنا سہارا بنایا ہوگا، جس نے حقیقی دین کو اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے اختیار کیاہوگا۔
0%