undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” َا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاء یَوْمِکُمْ ہَـذَا قَالُواْ شَہِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130)

”(اس موقع پر اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ) اے گروہ جن وانس ! کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ہو پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے ۔ “ وہ کہیں گے ” ہاں ! ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں ۔ “ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “

یہ استفہام تقریری ہے ۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ اللہ ان لوگوں سے معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے کہ آیا رسول آئے تھے یا نہیں ۔ اللہ تو خوب جانتے تھے کہ کیا ہوچکا ہے ۔ ان کی جانب سے اقرار اور استشہاد درحقیقت ان کی سزا کے لئے وجہ جواز ہے ۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ سزا ان کے لئے عادلانہ سزا ہے ۔ وہ اس کے مستحق ہیں ۔

خطاب جس طرح جنوں سے ہے اسی طرح انسانوں سے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جنوں کے پاس بھی خود ان کے ہم جنس رسول بھیجے گئے تھے ؟ جس طرح انسانوں کے پاس انسان آئے تھے ۔ جن انسانوں سے پوشیدہ مخلوق ہے اور ان کے اصل حالات سے تو صرف اللہ خبر رکھتا ہے ۔ رہی یہ آیت ‘ تو اس کی تفسیر میں کہا جاسکتا ہے کہ جنات بھی رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والے کلام کو سنتے تھے ۔ پھر جا کر اپنی قوم کو ڈراتے تھے اور خوشخبری بھی سناتے تھے ۔ اس کی تفصیلات احقاف میں قرآن نے دی ہیں : ۔

” اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ وہ قرآن سنیں ۔ جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ ‘ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ۔ انہوں نے جاکر کہا : ” اے ہماری قوم کے لوگو ‘ ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے ‘ تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی ‘ راہنمائی کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف ‘ اے ہماری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی طرف بلانے والی دعوت قبول کرلو ‘ اور اس پر ایمان لے آؤ اور اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذاب الیم سے بچا لے گا ۔ “ اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کردے اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچائیں ایسے لوگ گمراہی میں پڑے ہیں ۔ “ (46 : 29 تا 32)

ہو سکتا ہے کہ یہ سوال و جواب ان انسانوں اور جنوں سے ہو رہا ہو جو اس طرح کھڑے تھے ۔ بہرحال اصل علم اللہ ہی کو ہے ۔ یہاں ہم اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے ۔ اس سے زیادہ اس مسئلے پر بحث کرنے کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہے ۔

بہرحال جن وانس میں سے جن لوگوں سے سوال کیا گیا تھا ‘ وہ جانتے تھے کہ یہ محض استفسار کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ فرد قرار داد جرم ہے ۔ ان کے جرم کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے اور یہ سوال و جواب محض زجرو توبیخ کے لئے ہیں ۔ چناچہ انہوں نے پورا پورا اعتراف کرلیا اور اس بات کا اقرار کرلیا جس کے وہ مستحق تھے ۔

(آیت) ” قَالُواْ شَہِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا (130) ” انہوں نے کہا ہم خود اپنے اوپر گواہی دیتے ہیں ۔ “ اب یہاں اس منظر پر ایک مبصرسامنے آتا ہے اور کہتا ہے ۔

(آیت) ” وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130)

” آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “

یہ تبصرہ دنیا میں ان کے حالات پر خوب منطبق ہوتا ہے ۔ دراصل اس دنیاوی زندگی کی بوقلمونیوں نے انہیں دھوکہ دے رکھا ہے اور اس دھوکے کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں ۔ اب وہ قیامت کے دن سب کچھ دیکھ لینے کے بعد مجبور ہیں کہ اپنے اوپر کی شہادت دیں کیونکہ یہاں انکار اور مکابرہ کرنے سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہے ۔ اس سے بڑی مایوس کن صورت حالات اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسے حالات میں گھرا ہوا پائے کہ خود اپنا دفاع بھی نہ کرسکتا ہو ۔ نہ انکار کی تاب ہو ۔ اور نہ کوئی عذر ومعذرت اس کے پاس ہو۔

اب ذرا ملاحظہ ہو قرآن کریم کا انداز بیان ۔ مشاہدہ قیامت کا جو تصویری نقشہ قرآن پیش کرتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا نقشہ یوں کھینچ دیا جاتا ہے کہ انسان منظر کو اسکرین پر دوڑتا محسوس کرتا ہے ۔ مستقبل کے بجائے قرآں کریم ان مناظر کے لئے ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے ‘ گویا یہ مناظر دکھلائے جا چکے ہیں ۔

یہ قرآن ہم اس دنیا میں پڑھ رہے ہیں ‘ بلکہ آج پڑھ رہے ہیں ‘ ابھی قیامت تو واقعہ ہی نہیں ہوئی ۔ ابھی تو ہم اس کرہ ارض پر ہیں لیکن یوں نظر آتا ہے کہ یہ منظر نظروں کے سامنے ہے بلکہ یہ منظر ہم دیکھ چکے ہیں ۔ ایک دیکھے ہوئے منظر کی حکایت ہو رہی ہے اور ہم اپنے حافظہ سے یاد تازہ کر رہے ہیں ۔ انسان یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس منظر کو تو ابھی آنا ہے ۔ لیکن بات یوں ہو رہی ہے کہ شاید کوئی تاریخی واقعہ دہرایا جا رہا ہے ۔

(آیت) ” وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130)

”’ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “

یہ انداز تخیل کے عجائبات میں سے ہے ۔

اب اس منظر کا خاتمہ ہوتا ہے اور روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے ۔ آپ کو خطاب کر کے اہل ایمان کو سمجھایا جاتا ہے اور اہل ایمان کے بعد قیامت تک آنے والے مومنین کو بتایا جاتا ہے کہ جن وانس کے اس انجام میں تمہارے لئے یہ سبق ہے ۔ یہ عظیم مخلوق جو جہنم کی طرف جارہی ہے اور تم اس منظر میں دیکھ رہے ہو کہ وہ خود اپنے خلاف اقرار جرم کر رہے ہیں کہ بیشک رسول آئے تھے ‘ انہوں نے اللہ کی پوری پوری ہدایات ہمیں سنائی تھیں ۔ اس برے انجام سے ہمیں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا ۔ مومنین کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ تو ان پر حجت تمام کرتا ہے ‘ ان کو بذریعہ رسل خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتا ہے ۔ خوشخبر بھی دیتا ہے اور انجام بد سے ڈراتا بھی ہے ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%