آیت 10 وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں ‘ یہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ آپ ﷺ سے پہلے بھی انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا رہا ہے۔ جیسے سورة الاحقاف آیت 9 میں آپ ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا : قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ یعنی آپ ﷺ انہیں کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھارسول نہیں ہوں ‘ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں۔ آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ خودفرما رہے ہیں کہ اس سے پہلے بھی انبیاء و رسل علیہ السلام کے ساتھ ان کی قومیں اسی طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سوبرس تک ایسا سب کچھ جھیلتے رہے۔ فَحَاق بالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ۔ ۔اگرچہ آپ ﷺ کی خواہش ہے کہ انہیں کوئی معجزہ دکھا دیا جائے تاکہ ان کی زبانیں تو بند ہوجائیں ‘ لیکن ابھی ایسا کرنا ہماری حکمت کا تقاضا نہیں ہے ‘ ابھی ان کی مہلت کا وقت ختم نہیں ہوا۔ یعنی یہ سارا معاملہ وقت کے تعین کا ہے ‘ یہاں time factor ہی اہم ہے ‘ جس کا فیصلہ مشیت الٰہی کے مطابق ہونا ہے۔
0%