آیت 1 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ط یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورة اَلْحَمْدُ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوا ہے ‘ پھر ساتویں پارے میں سورة الانعام اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ج سے شروع ہو رہی ہے ‘ اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورة الکہف کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ سے ہو رہا ہے ‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں سورۂ سبا اور سورة فاطر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔ دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے افعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے ‘ لیکن اندھیرا اور اجالا اس طرح کی مادّی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں ‘ کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے۔ اس لیے ان کے لیے الگ فعل جَعَلَاستعمال ہوا ہے کہ اس نے ٹھہرا دیے ‘ بنا دیے ‘ نمایاں کردیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ یعنی یَعْدِلُوْنَ بِہٖ شُرَکَاءَ ھُمْکہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں ‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے ‘ بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے ‘ چناچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے ع ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ! یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔ شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورة النساء آیت 48 اور 116 میں پڑھ چکے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج اللہ تعالیٰ اسے ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا ‘ بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا ‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہوجائے تو یہ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوا میم وہ سورتیں جن کا آغاز حٰآ سے ہوتا ہے میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورة الفرقان سے سورة الاحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ جس میں سورة یٰسٓ‘ سورة فاطر ‘ سورة سبا ‘ سورة صٓ اور حوا میم بھی شامل ہیں۔ سورة یٰسٓاس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہرحال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جو اسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔
0%