آیت 8{ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی“ { ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ } ”پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اس ہستی کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے“ اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے ‘ جو کچھ تمہارے سامنے ہے اس کا بھی اور جو کچھ تمہارے پیچھے ہے اس کا بھی۔ جو کچھ بحیثیت نوع انسانی تمہارے لیے واضح کردیا گیا ہے اس کا بھی اور جو کچھ تم سے غیب میں رکھ دیا گیا ہے اس کا بھی۔ { فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ } ”پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔“ یہاں پر چار آیات پر مشتمل سورت کے دوسرے حصے کا مطالعہ بھی مکمل ہوگیا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت ہوچکی ہے کہ ان آیات میں تذکرہ تو یہود کا ہے لیکن یاد دہانی ہماری مقصود ہے۔ چناچہ ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن اگر تورات کے حقوق کے حوالے سے یہودیوں کا احتساب ہوگا تو ہم سے بھی پوچھا جائے گا کہ اللہ کے رسول ﷺ جو کتاب تم لوگوں کے حوالے کر کے گئے تھے اس کے حقوق کی ذمہ داری کو تم نے کس حد تک نبھایا ؟ حضور ﷺ نے تو حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں کو گواہ بنا کر قرآن مجید کے پیغام کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے کی ذمہ داری امت کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔ اس حوالے سے آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ کہ کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ تمام حاضرین مجمع نے جواب میں یک زبان ہو کر کہا تھا : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 1 ”ہم گواہ ہیں کہ آپ ﷺ نے حق تبلیغ ادا کردیا ‘ حق امانت ادا کردیا ‘ حق نصیحت ادا کردیا“۔ بعض روایات میں حاضرین کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَـلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ ‘ وَنَصَحْتَ لِاُمَّتِکَ ‘ وَقَضَیْتَ الَّذِیْ عَلَیْکَ 2 ”ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کماحقہ پہنچا دیے ‘ اور اپنی امت کے لیے حق نعمت ادا کردیا ‘ اور اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کردی !“ لوگوں کے اس جواب پر آپ ﷺ نے تین مرتبہ اللہ کو بھی گواہ بنایا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ کہ اے اللہ تو بھی گواہ رہ ! یہ لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 3 کہ اب جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ نے قرآن مجید کی دعوت و تبلیغ پوری نوع انسانی تک پہنچانے کی بھاری ذمہ داری اپنی امت کی طرف منتقل فرما دی۔ ظاہر ہے اس ذمہ داری کے بارے میں کل ہم سے پوچھا تو جائے گا۔
0%