آیت 6{ قُلْ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْآ اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّــکُمْ اَوْلِیَــآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ اے وہ لوگو جو یہودی ہوگئے ہو ‘ اگر تمہیں واقعی یہ گمان ہے کہ بس تم ہی اللہ کے دوست ہو باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر“ زعم کا لفظ ”خیال خام“ کے معنی میں ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کا بڑا زعم ہے۔ تو اگر تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور محبوب ہونے کا ایسا ہی زعم ہے : { فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو تم موت کی تمنا کرو ‘ اگر تم واقعی سچے ہو۔“ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور دوست ہو تو تمہیں اپنے دوست سے وصل کی تمنا ہونی چاہیے اور یہ تمنا چونکہ موت کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے اس لیے تمہارے دلوں میں ہر وقت موت کی خواہش موجزن رہنی چاہیے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة البقرۃ آیات 94 ‘ 95 ‘ 96 میں بھی آچکا ہے۔
0%