undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

مثل الذین ............ القوم الظلمین (26 : 5) ” جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا “۔

بنی اسرائیل کو توریت دی گئی اور وہ نظریہ اور شریعت کی امانت کے حامل بنے۔ لیکن انہوں نے۔

لم یحملوھا (26 : 5) ” انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا “۔ کیونکہ اس امانت کو ادراک تفقہ اور فہم و فراست اور حکمت و دانائی کے ساتھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ضمیر کی دنیا میں اور عمل کی دنیا میں اس ذمہ داری کو قبول کرنا چھوڑ دیا تھا اور قرآن نے جس طرح بنی اسرائیل کی سیرت کا ریکارڈ پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس امانت کی کوئی قدر نہ کی۔ وہ صرف ایک بوجھ اٹھا رہے تھے۔ اسامانت اور دین کے مقاصد پورے نہ کررہے تھے۔

یہ نہایت ہی حقیر تصویر ہے ، ان کو جو یہاں قرآن کریم نے کھینچی ہے ، لیکن یہ تصویر ان کی حقیقت کا اظہار نہایت ہی عمدہ طریقے سے کرتی ہے۔

بئس مثل .................... الظلمین (26 : 5) ” اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہی دیتا “۔

اور جن لوگوں کو یہ آخری امانت دی گئی ہے ، وہ اگر یہی رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی مثال بھی ایسی ہی ہے وہ سب لوگ جن کو دینی امانت دی گئی اور وہ اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ ان کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان جن پر صدیاں گزر گئیں اور وہ مسلمانوں کے صرف نام اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے اندر مسلمانوں کے اعمال نہیں ہیں ، خصوصاً وہ لوگ جو قرآن اور کتب اسلامی کو پڑھتے ہیں اور وہ فرائض ادا نہیں کرتے جو ان میں ہیں۔ یہ سب لوگ ایسے ہی ہیں جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ہمارے دور میں ایسے لوگ بہت ہیں۔ مسئلہ کتابوں اور تدریس وتعلیم کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ عمل اور ذمہ داریاں اٹھانے کا ہے۔

یہودیوں کا زعم یہ تھا اور اب بھی ان کے اندر یہ زعم موجود ہے کہ وہ اللہ کی مختار قوم ہیں ، پسندیدہ اور برگزیدہ ! اور یہ کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں بمقابلہ تمام دوسری اقوام کے۔ جبکہ دوسری اقوام گویم ہیں یا امی ہیں یا اممی ہیں۔ لہٰذا ان پر اپنے دن کے احکام پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ گویم کے لئے ہے۔

وقالوا لیس ................ سبیل اگر ہم دوسری اقوام کے لوگوں پر کوئی زیادتی کریں تو ہم پر مواخذے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے دعوے وہ کرتے تھے۔ جن پر کوئی دلیل نہ تھی۔ یہاں اللہ ان کو دعوت مباہلہ دیتا ہے۔ دعوت مباہلہ ان کو بھی دی گئی اور نصاریٰ کو بھی۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%