واذاراو ........................ الرزقین (26 : 11) ” اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے “۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک بار جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا ، جس میں کھانے کا سامان تھا۔ لوگ قافلے کی طرف لپک گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو آدمی رہ گئے۔ ان میں حضرت ابوبکر اور عمر ؓ تھے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
واذا ........................ وترکوک قائما (26 : 11) اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا “۔
آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے ، وہ اس لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور یہ بھی یہاں صراحت کے ساتھ بتایا کہ اللہ بہترین رزق دینے والوں میں سے ہے۔
واللہ خیر الرزقین (26 : 11) ” اللہ بہتر رزق دینے والا ہے “۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بدوی عربی معاشرے کی تعلیم وتربیت کے لئے اسلام نے کس قدر جدوجہد کی ، اور کس طرحان لوگوں سے صحابہ کی وہ جماعت تیار کردی جس نے انسانی تاریخ میں ایک ریکارڈ کردیا۔ پوری انسانی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ہے اور ان کی زندگیوں میں ان لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہے جو زمانہ مابعد میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کس قدر صبرومصابرت سے کام لیا ، اور اسلامی انقلاب کی راہ میں پیش آنے والی کمزوریوں ، نقائص ، واماندگیوں اور لغزشوں پر کس طرح صبر کیا اور ان کو دور کیا۔ آج ہم بھی اسی طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ یہ نفس انسانی اپنے اندر خیر کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور شر کی بھی۔ اس کے اندر یہ صلاحیت بھی ہے کہ روحانی قوت اور روحانی اور قلبی صفائی کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ جائے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے صبروثبات ، فہم وادراک ، ثابت قدمی اور استقامت اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ گھبرا کر انسان نصف راستے سے واپس ہوجائے۔ واللہ المستعان علی ماتصفون۔
0%