undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فاذ قضیت ........................ تفلحون (26 : 01) ” پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے “۔

یہ ہے اسلامی نظام کا توازن۔ یعنی زمین ضر ضروریات زندگی کا توازن۔ مثلاً کام کاج اور تلاش معاش اور روح کا ذکر الٰہی میں مشغول کرنا اور ایک وقت کے لئے تلاش معاش کی سرگرمیوں سے نکل کر عزات نشیں ہوکر ذکر وفکر میں مشغول ہونا ، قلبی زندگی کے لئے یہ ضروری ہے اور اس قلبی اور روحانی بالیدگی کے بغیر کوئی شخص اس عظیم امانت کا حق ادا نہیں کرسکتا جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ذکر الٰہی تلاشمعاش کے دوران بھی ضروری ہے۔ اور تلاش معاش کے اندر بھی اگر ذکر وفکر ہو تو یہ تلاش معاش عبادت بن جاتا ہے لیکن تلاش معاش کے دوران ذکر وفکر کے علاوہ ایک وقت صرف ذکر وفکر کے لئے خالص بھی ضروری ہے۔ جس میں اور کوئی کام نہ ہو جس طرح ان دو آیات میں اشارہ ہے۔

حضرت عراک ابن مالک ؓ جب جمعہ کی نماز پڑھتے تھے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ فرماتے ہیں۔ اے اللہ میں نے آپ کی پکار کی تعمیل کردی اور فرض نماز ادا کردیا اور اب میں مسجد سے نکل رہا ہوں جس طرح تو نے حکم دیا ہے ، اے اللہ مجھے اپنا فضل نصیب کر۔ آپ خیرالرازقین ہیں (ابن ابو حاتم) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حکم الٰہی کو کس سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔ کس قدر سادگی سے ، کیونکہ ان کے دل میں شعور تھا کہ ، قرآن اللہ کے احکام پر مشتمل ہے اور مسلمانوں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔

صحابہ کرام کا یہ سادہ ادراک ، سنجیدہ طرز عمل اور نہایت ہی سادگی سے رب تعالیٰ سے ہمکلامی ہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے وہ اس قدر بلند مقام تک پرواز کرگئے ، حالانکہ وہ جاہلیت سے نکل کر آئے تھے ، اور جاہلیت کی عادات اور میلانات ان کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اور جاہلیت کی ایک عادت کا نمونہ اس سورت کی آخری آیات میں پیش کیا جاتا ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%